سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(680) کیا نماز میں پہلے تشہد کے ساتھ درود شریف پڑھنا چاہیے؟

  • 24689
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-31
  • مشاہدات : 958

سوال

(680) کیا نماز میں پہلے تشہد کے ساتھ درود شریف پڑھنا چاہیے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا نماز میں پہلے تشہد کے ساتھ درود شریف پڑھنا چاہیے؟ بعض لوگ پہلے قعدے میں تشہد کے ساتھ درود شریف پڑھنے کے لیے قرآن کی آیت﴿یٰٓاَیُّهَا الَّذِینَ اٰمَنُوا صَلُّوا عَلَیهِ﴾(الاحزاب:۵۶) اور اس حدیث سے جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے درود پڑھنے کے بارے میں سوال کیا تھا، استدلال کرتے ہوئے ضروری قرار دیتے ہیں جب کہ ’’مسند احمد‘‘، تلخیص ابن حجر رحمہ اللہ   اور نصب الرایۃ کی روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے قعدے میں صرف تشہد ہی پڑھیں گے۔ بہرحال بحوالہ وضاحت فرما کر عند اﷲ مأجور ہوں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی بھی صحیح مرفوع متصل روایت میں پہلے تشہد میں درود پڑھنے کی ممانعت نہیں۔ بلکہ حدیث کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ  کا عموم، جواز پر دال ہے۔ فرماتے ہیں:

’ اَنَّ النَّبِیَّﷺ سُئِلَ عَن کَیفِیَّةِ الصَّلٰوةِ عَلَیهِ ، فَقَالَ: ’ قُولُوا: اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ ‘ الخ " تلخیص الحبیر، جز:۱، ص۲۶۸

اور بعض صحیح روایات میں الفاظ یوں ہیں:

’ قَالُوا: یَا رَسُولَ اللّٰهِ ﷺ ! قَد عَلِمنَا کَیفَ نُسَلِّمُ عَلَیكَ (أَی فِی التَّشَهُّدِ)، فَکَیفَ نُصَلِّی عَلَیكَ؟ قَالَ: قُولُوا : اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ …  ‘صحیح البخاری،بَابُ الصَّلاَةِ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،رقم:۶۳۵۷

یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے عرض کی: یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیں اس بات کا تو علم ہو گیا، کہ آپ پر سلام (تشہد میں) کیسے پڑھا جائے۔ پس یہ فرمائیے: کہ درود کیسے پڑھیں، فرمایا :کہو:’’اللّٰھُمَّ صَلّ علی محمّد ‘‘ … الحدیث ۔

علامہ البانی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’ فَلَم یَخُصَّ تَشُهُّدًا دُونَ تَشُهُّدٍ۔ فَفِیهِ دَلِیلٌ عَلٰی مَشرُوعِیَّةِ الصَّلَاةِ عَلَیهِ فِی التَّشهُّدِ الأَوَّلِ أَیضًا وَهُوَ مَذهَبُ الاِمَامِ الشَّافِعِی، کَمَا نَصَّ عَلَیهِ فِی کِتَابِهٖ الأمّ وَهُوَ الصَّحِیحُ عِندَ أَصحَابِهٖ ، کَمَا صَرَّحَ بِهِ النَّوَوِیُّ فِی  المَجمُوع، (۴۶۰/۳) وَ قَد جَاءَت أَحَادِیثُ کَثِیرَةٌ فِی الصَّلَاةِ عَلَیهِ فِی التَشَهُّدِ، وَ لَیسَ فِیهَا التَّخصِیصُ المُشَارُ إِلَیهِ ، بَل هِیَ عَامَّةٌ تَشمَلُ کُلَّ تَشَهُّدٍ… وَ لَیسَ لِلمَانِعِینَ المُخَالِفِینَ أَیَّ دَلِیلٍ یُحتَجُّ بِهٖ ‘صفة الصلوٰة،ص:۱۴۲۔۱۴۳

یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  نے درود پڑھنے کے لیے کسی ایک ’’تشہد‘‘ کو خاص نہیں کیا۔ پس اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے، کہ پہلے تشہد میں بھی درود پڑھنا مشروع ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ  کا مسلک بھی یہی ہے جس طرح کہ ’’ الام‘‘ میں منصوص ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ  کے اصحاب کے نزدیک بھی یہی بات صحیح ہے جس طرح کہ نووی نے ’’المجموع‘‘(۳/۴۶۰) میں تصریح کی ہے ۔ نیز بہت سی احادیث میں تشہد میںآپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر درود کا تذکرہ موجود ہے، لیکن ان میں مشارٌ الیہ تخصیص کا نام و نشان تک نہیں، بلکہ وہ عام اور ہر تشہد کو شامل ہیں اور مخالفین کے پاس قابلِ احتجاج کوئی دلیل موجود نہیں۔

مانعین کے دلائل کا جائزہ:

اس سلسلے میں مانعین کے بھی چند دلائل ہیں۔ ان کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے۔ جس طرح کہ سائل نے بھی ان کی نشاندہی کی ہے۔ چنانچہ ’’سنن ابو داؤد‘‘ میں حدیث ہے:

’ عَنِ النَّبِیِّﷺ کَانَ فِی الرَّکعَتَینِ الاَولَیَینِ کَأَنَّهٗ عَلَی الرَّضفِ۔ قَالَ: قُلنَا: حَتّٰی یَقُومَ۔ قَالَ: حَتّٰی یَقُومَ  ‘سنن أبی داؤد،بَابٌ فِی تَخْفِیفِ الْقُعُودِ،رقم:۹۹۵، سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاء َ فِی مِقْدَارِ القُعُودِ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الأُولَیَیْنِ.،رقم:۳۶۶

یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم  پہلی دو رکعتوں میں ایسے ہوتے تھے، گویا کہ گرم پتھر پر ہیں۔ ہم کہتے ابھی اٹھے۔‘‘

اور ترمذی کی روایت میں ہے، شعبہ نے کہا: پھر سعد نے کسی شَے کے ساتھ اپنے ہونٹوں کو حرکت دی۔ پس میں نے کہا ’’حتی یقوم‘‘ وہ بھی کہہ رہے تھے ’حتی یقوم‘  امام ترمذی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: اہلِ علم کا عمل اس حدیث کے مطابق ہے۔ وہ اس بات کو پسند کرتے ہیں، کہ آدمی پہلی دو رکعتوں میں زیادہ دیر نہ بیٹھے اور پہلی دو رکعتوں میں تشہد سے زیادہ کچھ نہ پڑھے۔ اگر کسی نے تشہد پر اضافہ کیا، تو اس پر دو ’’سجودِ سہو‘‘ لازم ہو جاتے ہیں۔ اس طرح شعبی وغیرہ سے بیان کیا گیا ہے۔ نیز امام ترمذی حدیث ہذا پر حکم لگاتے ہوئے رقمطراز ہیں۔

’ هٰذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ إِلَّا أَن أَبَا عُبَیدَة،َ لَم یَسمَع مِن أَبِیهِ ۔‘

یعنی یہ حدیث حسن درجہ کی ہے۔ البتہ ابو عبیدہ کا اپنے باپ(عبد اﷲ) سے سماع ثابت نہیں۔‘‘

اور عمرو بن مُرّۃ کا بیان ہے۔ میں نے ابو عبیدہ سے دریافت کیا۔ کہ تجھے عبد اﷲ سے کوئی شے یاد ہے ؟ کہا: مجھے کوئی شئی یاد نہیں۔ عون المعبود(۳۷۸/۱) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’ وَهُوَ مُنقَطِعٌ لِأَنَّ أَبَا عُبَیدَةَ لَم یَسمَع مِن أَبِیهِ ‘تلخیص الحبیر: جز ۱،ص:۲۶۳

یعنی یہ حدیث منقطع ہے۔ اس لیے کہ ابو عبیدہ کا اپنے باپ سے سماع ثابت نہیں۔

لہٰذا یہ روایت قابلِ حجت نہ ٹھہری اور جہاں تک تعلق ہے اس روایت کا جو ’’مسند احمد‘‘ اور ’’ابن خزیمہ‘‘ میں ہے۔ جس میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے :

’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کو تشہد کی تعلیم دی پس جب وہ (درمیانہ قعدہ) میں بیٹھتے اور (آخری قعدہ) میں بیٹھتے، تو بائیں ران پر بیٹھتے۔’اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ ……عَبدُہٗ وَرَسُولُہٗ‘ تک پڑھتے۔ پھر اگر درمیانے قعدہ میں ہوتے تو صرف تشہد پڑھ کر کھڑے ہو جاتے اور اگر اخیر میں ہوتے، تو تشہد کے بعد اﷲ سے جو چاہتے دعا مانگتے۔ پھر سلام پھیرتے۔‘‘ 2

روایت ہذا واضح طور پر اس بات پر دال ہے، کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ  نے (قعدہ اُولیٰ )میں صرف تشہد پر اکتفاء کی ہے، لیکن روایت موقوف ہے۔ مرفوع نہیں۔ صاحب’’ المرعاۃ‘‘فرماتے ہیں: امام ابو حنیفہ نے اسی بات کو اختیار کیا،لیکن امام شافعی  رحمہ اللہ  کے نزدیک دُرود کا اضافہ بھی درست ہے۔ پھر وہ اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’ اَلظَّاهِرُ أَن لَا یَزِیدَ عَلٰی التَّشَهُّدِ، لٰکِن لَو زَادَ یَجِبُ عَلَیهِ سَجَدتَا السَّهوِ لِأَنَّهٗ لَم یَقُم دَلِیلٌ شَرعِیٌّ عَلٰی وُجُوبِ سَجدَةِ السَّهوِ عَلٰی مَا زَادَ عَلَی التَّشَهُّدِ فِی القَعدَةِ الأَولٰی ‘ (۶۷۱/۱)

یعنی ’’ظاہر بات یہ ہے، کہ نمازی تشہد پر اضافہ نہ کرے۔ لیکن اگر کوئی اضافہ کردے، تو اس پر سجودِ سہو واجب نہیں، کیونکہ کوئی شرعی دلیل اس بات پر قائم نہیں ہو سکی، کہ (قعدۂ اولیٰ) میں تشہد پر زیادتی کی صورت میں سجدۂ سہو لازم ہے۔‘‘

جملہ دلائل سے ظاہر ہے کہ علامہ موصوف کا استدلال صرف شواہد پر مبنی ہے۔ بطورِ خاص کوئی صحیح مستند موجود نہیں۔ جب کہ دوسری جانب واضح موقف ہے۔ جو مُصَرَّح دلائل (واضح دلائل) پر موقوف ہے۔ مزید آنکہ ’المنتقیٰ، بَابُ مَا جَائَ فِی الصَّلَٰوۃِ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِﷺ‘  میں حدیث ہے :

’ فَقَالَ لَهٗ بَشِیرُ بنُ سَعدٍ: اَمَرَنَا اللّٰهُ اَن نُّصَلِّیَ عَلَیكَ فَکَیفَ نُصَلِّی عَلَیكَ؟ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ: قُولُوا اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ…‘ سنن أبی داؤد،بَابُ الصَّلَاةِ عَلَی النَّبِیِّ ﷺبَعْدَ التَّشَهُّدِ،رقم:۹۸۰،سنن الترمذی،رقم:۳۲۲۰، سنن الدارمی، رقم:۱۳۸۲

یعنی بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے دریافت کیا، کہ اﷲ نے ہمیں آپ پر درود کا حکم دیا ہے ہم آپ پر کیسے درود بھیجیں۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: کہو:’اللّٰهُمَّ صَلّ علی محمّدٍ …‘الخ

اور ’’مسند احمد‘‘ میں ہے:’فَکَیفَ نُصَلِّی عَلَیكَ، إِذَا نَحنُ صَلَّینَا فِی صَلَاتِنَا؟‘ مسند احمد،رقم:۱۷۰۷۲" یعنی جب ہم نماز پڑھیں تو اپنی نمازوں میں آپ پر کیسے درود بھیجیں؟‘‘ مقامِ ہذا توضیح و تفصیل کا محل ہے۔ پہلے اور دوسرے (قعدہ) میں درود پڑھنے کے اعتبار سے فرق کی وضاحت نہ کرنا، عمومِ جواز کی دلیل ہے اور علومِ فقہ میں قاعدہ معروف ہے: ’ تَاخِیرَ البَیَانِ عَن وَقتِ الحَاجَةِ لَا یَجُوزُ ۔‘یعنی ضرورت کے وقت کسی شے کی وضاحت نہ کرنا ناجائز ہے۔

اس سے معلوم ہوا پہلے تشہد میں درود پڑھنا جائزہے۔ واضح ہو کہ علماء کا ایک گروہ نماز میں درود کے وجوب کا قائل ہے، جب کہ جمہور علماء عدمِ وجوب کے قائل ہیں۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ  نے عدمِ وجوب کو اختیار کیا ہے ۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو!’’نیل الأوطار‘‘ (۲۹۵/۲۔۲۹۶)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:578

محدث فتویٰ

تبصرے