السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تشہد کی حالت میں شروع سے ہی انگلی کو حرکت دینی شروع کردینی چاہیے یا درود کے بعد جب دعائیںشروع کریں۔ نیز کیا دو سجدوں کے درمیان بھی حرکت دینی چاہیے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ظاہر یہ ہے کہ تشہد میں انگلی کو حرکت شروع سے دی جائے، کیونکہ حدیث کے لفظ’یُحَرِّکُهَا، کا تقاضا یہی ہے، کہ اسے شروع تشہد سے آخر تک حرکت دیتا رہے۔ مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ظَاهِرُ الحَدِیثِ یَدُلُّ عَلَی الاِشَارَةِ مِن اِبتِدَاءِ الجُلُوسِ ‘تحفة الاحوذی:۱۸۵/۲
پھر ’یَدعُوبِهَا ‘ کا مفہوم بھی یہی ہے۔
سجدوں کے درمیان اشارے والی حدیث کو عبد الرزاق نے’المصنف،(۶۸/۲) ،اور اس سے احمد نے ’’مسند‘‘(۳۱۷/۴) میں،اور طبرانی نے ’المعجم الکبیر،(۳۳/۲۲) میں ذکر کیا ہے۔ اس حدیث کے راوی وائل بن حجر رضی اللہ عنہما ہیں۔ اس بارے میں وائل کی دیگر جملہ رویات اس کے خلاف ہیں اور جن لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا وصف بیان کیا ہے ان کی روایات بھی وائل کی اس روایت کے خلاف ہیں۔ ان کے مطلق اور مقید الفاظ کا تعلق تشہد کی بیٹھک سے ہے۔
علامہ بکر بن عبد اﷲ ابو زید فرماتے ہیں: ’’علمائے سلف میں سے کسی نے دو سجدوںکے درمیان اشارہ کرنے کی تصریح نہیں کی، اور نہ کسی نے اس کے مقتضٰی کے مطابق کوئی ’’ترجمۃ الباب‘‘ قائم کیا ہے اور مسلمانوں کا متوارث عمل عدمِ اشارہ اور عدمِ حرکت ہے۔ یہ ان روایات سے ہے جس پر عدمِ عمل میں مسلمان متفق ہیں یا تو اس کے ضعف کی وجہ سے یا اس بناء پر کہ اس کا ظاہر ترتیب حکمی کے خلاف ہے۔ امام بیہقی نے ’السنن الکبریٰ،(۱۳۱/۲) میںاس حدیث کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن باز اور علامہ البانی;نے کہا ہے، کہ عبد الرزاق کی یہ روایت ’’ثوری عن عاصم‘‘ ہے اس میں عبد الرزاق، ثوری سے متفرد ہے۔ محمد بن یو سف فریابی اس کا مخالف ہے۔ جب کہ وہ ہمہ وقت ثوری کے ساتھ رہا ہے۔ انھوں نے حدیث کے اخیر میں سجدۂ مذکورہ کا ذکر نہیں کیا۔ عبد اﷲ بن الولید نے محمد کی متابعت کی ہے۔حدیث کے اخیر میں یہ زیادتی ’ ثُمَّ سَجَدَ‘ عبد الرزاق کے اوہام سے ہے۔
روایات اس بات پر متفق ہیں، کہ اشارے کا تعلق پہلے اور دوسرے تشہد کے جلوس سے ہے۔( تمام المنة:۲۱۴/۱۔۲۱۷، السلسلۃ الصحیحة:۳۰۸،۳۱۴/۵۔ حدیث:۲۲۴۷۔۲۲۴۸) مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! کِتَابٌ لَا جَدِیدَ فِی اَحکَامِ الصَّلٰوۃِ:ص:۳۸تا ۴۶۔ تألیف علامہ بکر بن عبد اﷲ ابوزید۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب