السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر کسی کی نئی نئی شادی ہوئی ہو اور میاں بیوی دونوں نوجوان ہوں اور وہ یہ ارادہ کریں کہ وہ تین چار سال اولاد نہیں چاہتے تو کیا ایسی سوچ رکھنا صحیح ہے ۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!ایسی سوچ رکھنا ناپسندیدہ ہے کیونکہ شریعت اسلامیہ میں صحیح نکاح کے ذریعےحصول لذت کے ساتھ ساتھ اولاد صالحہ بھی مطلوب و مقصود اور مستحب و مستحسن ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اس آیت کریمہ میں جو یہ فرمایا،جو اللہ نے تمھارے لیے لکھا ہے طلب کرو‘‘ اس سے کئی ایک مفسرین نے اولاد مراد لی ہے، جیسا کہ تفسیر طبری وغیرہ میں مرقوم ہے اور بعض سلف نے لیلۃ القدر مراد لی ہے۔ امام طبری فرماتے ہیں:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبتل سے منع کرتے تھے اور فرماتے تھے :
معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا:
لہٰذا شرعی طور پر تو زیادہ اولاد کا حاصل کرنا مطلوب و مستحسن ہے اور بچوں میں مناسب وقفہ اور منصوبہ بندی کرنا معیوب ہے۔ شریعت اسلامیہ میں عزل کا جو جواز ہے وہ بھی کراہت کے ساتھ ہے، جیسا کہ جدامہ بنت وہب رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حاضر ہوئی اور لوگ بھی تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ میں نے ارادہ کیا کہ غیلہ (دودھ پلانے والی سے وطی کرنے) سے منع کر دوں، تو میں نے روم اور فارس میں دیکھا کہ وہ اپنی اولاد کے بارے میں غیلہ کرتے ہیں تو یہ چیز ان کی اولاد کو کوئی ضرر نہیں دیتی۔‘‘ پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
البتہ اگر کوئی عورت اتنی لاغر اور کمزور ہو کہ ماہر ڈاکٹر دیانتداری سے تجویز دے کہ اس عورت کے ہاں بچے کی ولادت اس کے لیے جان لیوا ثابت ہو گی تو اس کے لیے کوئی بھی ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے ولادت نہ ہو، یہ مضطر اور لاچار کی فہرست میں داخل ہو گی اور اضطرار کی صورت میں شرعی حکم تبدیل ہو جاتا ہے، حرام بھی بقدر ضرورت حلال ہو جاتا ہے، جیسا کہ نص قرآنی و حدیث میں مذکور و موجود ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائلجلد 02 |