السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رفعِ سبابہ کس وقت کرنا چاہیے؟ ہمارے یہاں ایک اہلِ حدیث صاحب کہتے ہیں کہ صرف اس وقت جب التحیات میں ’اَشهَدُ اَن…‘کہے ۔اس وقت انگلی کو حرکت دینی چاہیے ۔ اس کے بعد حرکت دینا، یعنی مسلسل انگلی کو حرکت دینا حدیث سے ثابت نہیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بعض اہلِ علم اس بات کے قائل ہیں کہ رفعِ سبابہ ’’لا الٰہ الا اﷲ‘‘ کہتے وقت ہونا چاہیے۔ ان لوگوں کا اعتماد بیہقی کی ایک روایت پر ہے۔ اس کا ایک جواب یہ ہے، کہ اس روایت میں قطعاً اس بات کی تصریح نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ کہنے پر اشارہ کرتے تھے۔ پھر روایت بھی ضعیف ہے۔ خفاف سے بیان کرنے والا راوی مجہول ہے۔ ’’ابو یعلیٰ‘‘ میں اس کی دوسری سند بھی ہے۔ لیکن اس میں سعید بن عیاض ضعیف ہے۔ حافظ ذہبی’’الکاشف‘‘میں اس کے بارے میں فرماتے ہیں : اسے ترک کردیا گیا ہے۔
نیز علامہ البانی نے ’’ حاشیۃ مشکوٰۃ‘‘ اور ’’صفۃ الصلاۃ‘‘ (ص:۱۳۶) میں’’لا الہ الا اﷲ ‘‘پر انگلی اٹھا کر رکھ لینے کو بے اصل قرار دیا ہے۔جملہ احادیث کے عموم کا تقاضا یہ ہے، کہ ’’تشہد‘‘ میں اوّل تا آخر انگلی کو اٹھا کر مسلسل حرکت میں لانا چاہیے۔ فرمایا:’کَانَ یُحَرِّكُ إِصبَعَهٗ یَدعُو بِهَا‘سنن أبی داؤد۔ سنن النسائی،بَابُ مَوْضِعِ الْیَمِینِ مِنَ الشِّمَالِ فِی الصَّلَاةِ،رقم:۸۸۹" اور عدمِ حرکت والی روایت شاذ یامنکر ہے کیونکہ ’لَا یُحَرِّکُهَا‘سنن أبی داؤد،بَابُ الْإِشَارَةِ فِی التَّشَهُّدِ،رقم:۹۸۹"میں محمد بن عجلان نے اپنے سے أوثق زائد بن قدامہ کی مخالفت کی ہے جس میں ’ یُحَرِّکُهَا ‘ کے الفاظ ہیں۔ حدیث میں رفع سبابہ کی وجہ یہ بیان ہوئی ہے:
’ هِیَ أَشَدُّ عَلَی الشَّیطَانِ مِنَ الحَدِیدِ۔ یَعنِی السَّبَابَة ‘مسند احمد،رقم:۶۰۰۰
یعنی ’’تشہد میں شہادت کی انگلی کا اٹھانا زیادہ سخت ہے شیطان پر لوہے( کا نیزہ مارنے) سے۔‘‘
اور عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
’ کَانَ النَّبِیُّ ﷺ یُشِیرُ بِاِصبَعِهٖ، إِذَا دَعَا ‘سنن أبی داؤد،بَابُ الْإِشَارَةِ فِی التَّشَهُّدِ،رقم:۹۸۹ ، سنن النسائی،بَابُ بَسْطِ الْیُسْرَی عَلَی الرُّکْبَةِ ،رقم:۱۲۷۰
یعنی ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد پڑھتے تو اپنی انگلی سے اشارہ کرتے تھے ۔‘‘
اور صحیح مسلم میں ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے: ’یدعو بھا‘ یعنی مسبحہ(شہادت کی انگلی) کے ساتھ آپ دعا کرتے تھے۔ مزید آنکہ ابوداؤد میں ہے:
’ لَا یُجَاوِزُ بَصُرُهٗ إِشَارَتَهٗ‘سنن ابی داؤدبَابُ الْإِشَارَةِ فِی التَّشَهُّدِ،رقم:۹۹۰"
’’اپنی نگاہ کو اشارے کے مقام پر رکھتے۔‘‘ نیز فرمایا:
’ قَد حَنَاھَا شَیئًا‘سنن ابی داؤدبَابُ الْإِشَارَۃِ فِی التَّشَہُّدِ،رقم:۹۹۱" یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم انگلی کو تھوڑا سا جھکائے ہوئے تھے۔
صاحب ’’ المرعاۃ‘‘ فرماتے ہیں:
’ فَالرَّاجِحُ عِندَنَا أَن یَعقِدَ مِن أَوَّلِ القُعُودِ مُشِیرًا بِالمُسَبِّحَۃِ ، مُستَمِرًّا عَلٰی ذٰلِكَ إِلٰی أَن یُسَلِّمَ۔ (وَاللّٰهُ أَعلَمُ) قَالَ العُلَمَائ: خُصَّتِ السَّبَّابَةُ بِالاِشَارَةِ: لِاتِّصَالِهَا بِنیََاطِ القَلبِ فَتَحرِیکُهَا سَبَبٌ لِحُضُورِهٖ ‘ (۶۶۲/۱)
یعنی ’’ہمارے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ قعدہ کے شروع سے(انگلیوں کی) گرہ لگائے۔ سلام پھیرنے تک مسلسل مسبحہ(انگشتِ شہادت) کے ساتھ اشارہ کرتا رہے۔ واﷲ اعلم۔ علماء نے کہا ہے کہ اشارہ کے لیے سبابہ انگلی کو اس لیے خاص کیا گیا ہے کیونکہ اس کا دل سے قریبی تعلق ہے۔‘‘
پس مسبحہ(انگشتِ شہادت) کو حرکت دینا دل کی بیداری کا موجب (سبب)ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب