السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
گزارش ہے کہ ہمارے محلے کی مسجد اہلِ حدیث کے امام جب نماز پڑھاتے ہیں تو جلسۂ استراحت کرنا بہت ضروری سمجھتے ہیں جس سے تقریباً آدھے نمازی اُن کی آواز ’’اللہ اکبر‘‘ سن کر اُن سے پہلے ہی کھڑے ہوجاتے ہیں اور دوسرے لوگ امام صاحب کو دیکھتے رہتے ہیں تاکہ وہ اُن کے اٹھنے کے بعد کھڑے ہوں جوکہ خشوع وخضوع کے خلاف ہی محسوس ہوتا ہے۔ چوں کہ ہمارے ہاں احناف اور اہلِ حدیث سب قسم کے نمازی ہوتے ہیں اور سب لوگ اتنا لمبا جلسۂ استراحت ضروری نہیں سمجھتے جس سے نماز کی ہیئت ایک عجیب شکل اختیار کرجاتی ہے۔ اِس سلسلے میں میں نے بعض اہلِ حدیث علماء سے پوچھا تھا۔ اُن کا خیال تھا کہ امامت کے وقت امام جلسۂ استراحت سے اجتناب کرلے تو اچھا ہے۔ میں نے امام ابن قیم رحمہ الله کی کتاب زاد المعاد کا مطالعہ بھی کیا ہے۔ اُنھوں نے بھی امام احمد بن حنبل رحمہ الله کی رائے نقل کی ہے کہ جلسۂ استراحت نبی ﷺ کی بیماری کی صورت میں دیکھا گیا جب کہ براہِ راست اٹھنا مشکل ہوتا ہے۔ ویسے بھی عقلاً نماز میں کوئی حرکت ’’اللہ اکبر‘‘ کہے بغیر ممکن نہیں ہوتی تو جلسۂ استراحت جو کہ ایک سکوت کی کیفیت ہے بغیر دوبارہ اللہ اکبر کہے کیسے اُس سے نکلا جاسکے گا۔ ہر سکوت کی کیفیت سے دوسری حالت میں جانے کے لیے اللہ اکبر کہنا ضروری ہے اس لیے براہِ کرم میری اور دیگر سب کی رہنمائی فرمائیے کہ امام کو کیسا رویہ اپنانا چاہیے کہ نمازی امام سے پہلے کھڑے نہ ہونے پائیں تاکہ ایک قبیح شکل جو کہ صرف ہماری اہلِ حدیث مساجد میں پائی جاتی ہے، سے بچا جاسکے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جلسۂ استراحت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث سے ثابت ہے۔ اس کا ذکر مالک بن حویرث کی حدیث میں بھی ہے جو ’’صحیح بخاری وغیرہ میں ہے۔ صحیح البخاری،بَابُ مَنِ اسْتَوَی قَاعِدًا فِی وِتْرٍ مِنْ صَلاَتِہِ ثُمَّ نَہَضَ،رقم:۸۲۳
علامہ البانی رحمہ الله فرماتے ہیں: جلسۂ استراحت کو اس امر پر محمول کرنا، کہ یہ حاجت کی بناء پر تھا۔ نہ کہ عبادت کی غرض سے۔ لہٰذا یہ مشروع نہیں جیسا کہ حنفیہ کا قول ہے۔ باطل ہے، اور اس کے بطلان کے لیے یہی کافی ہے کہ دس صحابہ رضی اللہ عنہم نے اسے رسول اللہ ﷺ کے طریقۂ نماز میں داخل ہونے پر سکوت اختیار کیا ۔ اگر انھیں یہ علم ہوتا، کہ نبی ﷺ نے اسے بوقت ضرورت کیا ہے، تو ان کے لیے اسے رسول اللہ ﷺ کے طریقۂ نماز میں داخل کرنا جائز نہ تھا۔ إرواء الغلیل: ۲/ ۸۳
لہٰذا مقتدیوں کو چاہیے طریقۂ نبوی کے مطابق امام ہذا سے نماز کی تعلیم حاصل کریں۔ امام صاحب پر اپنی مرضی ٹھونسنے سے اجتناب کریں۔ ساری خیر وبرکت اسی میں ہے۔ فعل یا ترک کا نام سنت ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’ ولکنا نتبع السنةَ فِعلًا أو ترکًا ‘فتح الباری: ۳/ ۵۹۹
سماحۃ الشیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وہ احکام جو دین کی طرف منسوب ہوں، ضروری ہے، کہ وہ دین کے نصوص سے ثابت ہوں اور ہر وہ شے جو زمانۂ تشریعی اور شرعی نصوص میں ثابت نہیں، وہ اس کے قائل پر مردود ہے۔ امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے ’’حجر اسود‘‘ کو مخاطب کرکے جو فرمایا تھا: اس کا مقتضی بھی یہی ہے۔ حاشیہ فتح الباری ۳/ ۵۹۹
’’جلسۂ استراحت‘ کے ترک پر چوں کہ شرعی کوئی نص موجود نہیں۔ لہٰذا اس کا اہتمام ہونا چاہیے۔ اَلخَیرُ کُلُّ الخَیر فِی الاِتِّبَاعِ اور اس کو کمزوری پر محمول کرنا محل نظر ہے۔ (واللہ ولی التوفیق )
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب