سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(646) دو سجدوں کے درمیان انگلی سے اشارہ کرنا

  • 24656
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-10
  • مشاہدات : 1069

سوال

(646) دو سجدوں کے درمیان انگلی سے اشارہ کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس وقت میرے سامنے ’’الاعتصام‘‘ کا شمار نمبر ۲۱ ،جلد:۵۵، کا صفحہ ۱۳ ہے۔ اس میں دو سجدوں کے درمیان‘‘انگلی سے اشارہ کے متعلق آپ نے فرمایا کہ اشارہ نہیں کرنا چاہیے۔

شیخ عبد العزیز نورستانی صاحب نے لکھا ہے کہ :’’حضرت وائل  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں:

’ ثُمَّ جَلَسَ… ثُمَّ اَشَاَر بِسَبَابَتِهٖ، وَ وَضَعَ الاِبهَامَ عَلَی الوُسطٰی وَ قَبَضَ سَائِرَ اَصَابِعِهٖ… ‘ (مسند احمد:۳۱۷، و اسنادہ صحیح ،صَلُّوا ص:۳۹) مسند احمد بن حنبل ،رقم:۱۸۸۵۸

نیز الشیخ حافظ عبد المنان صاحب نور پوری کی کتاب ’’احکام و مسائل‘‘ (جلد اوّل،ص:۱۹۳،۱۹۴، ۱۹۵) میں حسب ذیل احادیث ہیں جن سے ’بین السجدتین اشارہ بسبابۃ‘  کا ثبوت پیش کیا گیا ہے۔

۱۔         عَنِ ابنِ عُمَرَؓ اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ کَانَ اِذَا جَلَسَ فِی الصَّلٰوةِ … بَاسِطَهَا عَلَیْهَا ‘صحیح مسلم،بَابُ صِفَةِ الْجُلُوسِ فِی الصَّلَاةِ، وَکَیْفِیَّةِ …الخ ،رقم:۵۸۰

۲۔        عَن عَلِیٍّ بنِ عَبدِ الرَّحمٰنِ المُعَاوِیِّ اَنَّهٗ قَالَ: رَأٰنِی عَبدُ اللّٰهِ بنُ عُمَرَ، وَ اَنَا اَعبَثُ بِالحَصٰی فِی الصَّلوٰةِ ۔ فَلَمَّا انصَرَفَ۔ نَهَانِی۔ َقَالَ: اِصنَع، کَمَا کَانَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ یَصنَعُ۔ قُلتُ: وَ کَیفَ کَانَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ یَصنَعُ؟ قَالَ: کَانَ اِذَا جَلَسَ فِی الصَّلٰوةِ وَضَعَ کَفَّهُ الیُمنٰی عَلٰی فَخِذِہِ الیُمنٰی ، وَ قَبَضَ أَصَابِعَهٗ کُلَّهٗ۔ وَ أَشَارَ بِاِصبَعِهِ الَّتِی تَلِی الاِبهَامَ وَ وَضَعَ کَفَّهُ الیُسرٰی عَلٰی فَخِذِهِ الیُسرٰی ‘صحیح مسلم،بَابُ صِفَةِ الْجُلُوسِ فِی الصَّلَاةِ، وَکَیْفِیَّةِ …الخ،رقم:۵۸۰

(الفاظاِذَا جَلَسَ فِی الصَّلٰوةِ، سے استدلال ہے۔)

۳۔        وَضَعَ الاِبهَامَ عَلَی الوُسطٰی، وَ قَبَضَ سَائِرَ أصَابِعِهٖ، ثُمَّ سَجَدَ - رواه احمد عن وائل:۳۱۷، و بلوغ الامانی جز:۳، ص:۱۴۹، و روی نحوه ابوداؤد

۴۔        عَن عَبدِ اللّّٰهِ ابنِ زُبَیرٍ قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَعَدَ یَدْعُو، وَضَعَ یَدَهُ الْیُمْنَی عَلَی فَخِذِهِ الْیُمْنَی، وَیَدَهُ الْیُسْرَی عَلَی فَخِذِهِ الْیُسْرَی، وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ، وَوَضَعَ إِبْهَامَهُ عَلَی إِصْبَعِهِ الْوُسْطَی، وَیُلْقِمُ کَفَّهُ الْیُسْرَی رُکْبَتَهُ‘صحیح مسلم،بَابُ صِفَةِ الْجُلُوسِ فِی الصَّلَاةِ، وَکَیْفِیَّةِ وَضْعِ الْیَدَیْنِ عَلَی الْفَخْذَیْنِ،رقم:۵۷۹

نیز علامہ نور پوری نے اس مسئلہ میں جناب البانی رحمہ اللہ  کے موقف( کہ اشارہ درست نہیں ہے) کے مقابلہ میں عبد العزیز نورستانی صاحب کے موقف( کہ ’’مسند احمد‘‘ کی مرفوع حدیث عن وائل،ص:۳۱۷، کی رو سے یہ عمل درست وثابت ہے) کو درست قرار دیا ہے۔(احکام و مسائل:۱۹۵/۱)

سوال یہ ہے کہ آپ اپنی تحقیق سے آگاہ فرما کر ممنوع فرمائیں کہ صحیح موقف کونسا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جو لوگ دو سجدوں کے درمیانے جلسے میں تحریک سبابہ( انگلی ہلانے) کے قائل ہیں۔ ان کا استدلال دو طرح سے ہے:

۱۔         اُن عمومی احادیث سے، جن میں نماز میں بیٹھنے کی حالت میں سبابہ(شہادت والی انگلی) کو حرکت دینے کا ذکر ہے۔ جس طرح حضرت وائل، حضرت ابن عمر، حضرت ابوہریرہ اور حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہم  سے مروی احادیث میں ہے۔ جب کہ دیگر روایات میں تشہد میں بیٹھنے کی قید موجود ہے۔ اس لیے مطلق کو مقید پر محمول کیا جائے گا ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے ابن رُشَید رحمہ اللہ  سے نقل کیا ہے، کہ:

’ إِذَا أُطلِقَ فِی الأَحَادِیثِ الجُلُوسُ فِی الصَّلَاةِ مِن غَیرِ تَقِیِیدٍ، فَالمُرَادُ بِهٖ جُلُوسُ التَّشَهُّدِ ‘فتح الباری:۳۱۰/۲، باب من لم یر التشهد الاول واجبا

’’جب احادیث میں بحالتِ نماز مطلق بیٹھنے کا ذکر ہو، تو اس سے مراد تشہد میںبیٹھنا ہوتا ہے۔‘‘

جس طرح ’’سنن نسائی‘‘ میں ان الفاظ میں باب قائم کیا گیا ہے:’مَوضِعُ الیَدَینِ عِندَ الجُلُوسِ لِلتَّشُهُّدِ الاَوَّلِ ‘ پھر اس کے تحت حضرت وائل کی حدیث بیان کی ہے۔ سنن النسائی،بَابُ مَوْضِعِ الْیَدَیْنِ عِنْدَ الْجُلُوسِ لِلتَّشَہُّدِ الْأَوَّلِ،رقم:۱۱۵۹

اس حدیث میں ’جُلُوسٌ لِلتَّشَھُّدِ‘کی تصریح نہیں۔ اس کے باوجود امام صاحب کا فہم یہ ہے، کہ یہاں ’جلوس بین السجدتین‘ نہیں، بلکہ ’’تشہد‘‘ کا جلوس مراد ہے۔

حضرت عبد اﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہما  کی حدیث پر امام بیہقی رحمہ اللہ  نے ’’سنن کبریٰ‘‘(۱۳۲/۲) میں یوں باب باندھا ہے:’بَابُ الدَّلِیلِ عَلٰی اَنَّ هٰذَا سُنَّةُ الیَدَینِ فِی التَّشَهُّدَینِ جَمِیعًا۔‘

۲۔        البتہ مصنف عبد الرزاق(۶۸/۲) میں حضرت وائل کی روایت میں تحریک سبابہ کے بعد ’ثُمَّ سَجَد‘ کے الفاظ ہیں۔ اس میں عبد الرزاق ،عن الثوری، عن عاصم منفرد ہے اور محمد بن یوسف فریابی کے مخالف ہے۔ جب کہ وہ حضرو سفر میں ثوری رحمہ اللہ  کامصاحب تھا۔ اس نے حدیث کے آخر میں سجدے کا ذکر نہیں کیا اور عبداﷲ بن ولید نے اس کی متابعت کی ہے۔ اس بناء پر حدیث کے اخیر میں ’ثُمَّ سَجَدَ‘ عبدالرزاق کا وہم ہے۔ اس بارے میں سماحۃ الشیخ ابن باز اور علامہ البانی کا موقف بھی یہی ہے، کہ ’ثُمَّ سَجَدَ‘ کے جملے میں عبد الرزاق کو وَہم ہوا ہے۔ جملہ روایات بھی اِسی بات پر متفق ہیں، کہ انگلی کا اشارہ پہلے اور دوسرے تشہد میں ہے۔ یہی مسلک درست ہے۔ (واﷲ تعالیٰ اعلم)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:558

محدث فتویٰ

تبصرے