السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مولانا صادق سیالکوٹی لکھتے ہیں کہ’رَبِّ اغفِرلِی‘ دونوں سجدوں کے درمیان کہنا ’ابن ماجہ‘ اور ’غنیۃ الطالبین‘ میں تین مرتبہ آیا ہے ۔ عبدالرؤف سندھو تخریج میں لکھتے ہیں، کہ دو مرتبہ اور ایک مرتبہ تواکثر آیا ہے، لیکن تین بار نہیں۔ جب کہ صحیح بخاری و مسلم میں ہے کہ حضورﷺ کا رکوع، سجود و قیام بعد الرکوع اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا تقریباً برابر ہوتا تھا۔صحیح تعداد تسبیح مذکورہ نبی کریمﷺ و صحابہ رضی اللہ عنہم سے کیا ثابت ہے؟ جمہور تین مرتبہ کے قائل کیوں ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مختلف روایات میں تطبیق اور توفیق کی صورت یوں ہے، کہ ان کو مختلف حالات پر محمول کیا جائے۔ بعض دفعہ آپﷺ اس کلمہ کو دو یا تین دفعہ پڑھتے اور بسا اوقات تکرار سے مسلسل پڑھتے رہتے۔ جس طرح کہ حضرت برائ رضی اللہ عنہ کی روایت سے مفہوم ہے۔ دراصل اس کا دارومدار نماز کی طوالت اور تخفیف پر ہے۔ عام حالات میں تسبیحات کا اندازہ تین سے دس تک ہے۔ جس طرح کہ بالترتیب ابن مسعود،اور انس رضی اللہ عنہما کی روایات میں مصرح (واضح)ہے۔ لیکن امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ لَا دَلِیلَ عَلٰی تَقِییدِ الکَمَالِ بِعَدَدٍ مَعلُومٍ، بَل یَنبَغِی الاِستِکثَارُ مِنَ التَّسبِیحِ عَلٰی مِقدَارِ تَطوِیلِ الصَّلٰوةِ مِن غَیرِ تَقِییدٍ بِعَدَدٍ ‘المرعاة:۶۴۱/۱
اور جو لوگ تین دفعہ کے قائل ہیں۔ وہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث کے ظاہر کی بناء پر ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب