السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ابن حزم نے ’’المحلّٰی‘‘ اور البانی نے ’’صفۃ صلاۃ النبیﷺ‘‘ میں سجدوںوالی رفع یدین کی احادیث کو صحیح کہا ہے کہ یہ احادیث فی الواقع قابلِ عمل ہیں؟عبد اﷲ روپڑی رحمہ اللہ نے ضعیف بتایا ہے۔ وضاحت فرمائیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسئلہ ہذا کو امام ابن حزم نے ’’المحلّٰی‘‘ میں ’’اَلأَعمَالُ المُستَحَبَّةُ فِی الصَّلٰوةِ وَ لَیسَت بَفَرضٍ‘‘ کے عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔ علامہ البانی نے ’’صفة الصلاۃ‘‘ میں حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ لیکن ان کا اپنا عمل عدمِ رفع پر ہے۔ میں نے بذاتِ خود ان کی مدنی زندگی میں اس بات کا مشاہدہ کیا ہے، جس طرح کہ راوی حدیث ہذا(اس حدیث کے راوی) مالک بن حویرث کا عمل بھی اس کے خلاف ہے۔ صحیحین میں اس امر کی وضاحت موجود ہے، جب کہ صحیحین میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میںسجود کے موقع پر عدمِ رفع کی تصریح موجود ہے۔ اس کے بالمقابل روایت سِرے سے صحیحین میں موجود ہی نہیں۔
اصولِ حدیث میں یہ بات مُسلَّمہ ہے کہ متفق علیہ روایت کا مقام اعلیٰ و ارفع ہے۔ جب کہ اس کے بالمقابل روایت کی صحت بھی کئی ایک اہلِ علم کے نزدیک محلِ نظر ہے۔ حضرت الشیخ محدث روپڑی رحمہ اللہ نے ’’فتاویٰ اہلحدیث‘‘ (۲/۱۲۵تا۱۳۶) میں اس مسئلہ کو لکھا ہے، اور دلائل سے ثابت کیا ہے کہ حدیث ہذا قابلِ حجت نہیں۔ اسی طرح صاحب ’’عون المعبود‘‘ (۱/۲۶۹۔۲۷۰) نے دلائل کی رُو سے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ ’’دلیل الطالب علی أرجح المطالب‘‘ میں نواب صاحب رحمہ اللہ نے بھی فرمایا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ جملہ دلائل کے پیشِ نظر عام رجحان بھی عدمِ رفع کی طرف ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب