السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اسلام میں موسیقی کی شرعی حیثیت کیا ہے۔؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!گانا سننا ایک حرام عمل ہے ،جس کی حرمت پر بے شمار دلائل پائے جاتے ہیں ۔گانا گانے اور سننے کی حرمت پر شیخ صالح المنجد کا تفصیلی فتویٰ پیش خدمت ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے۔
سیدنا ابن عباس رضى اللہ تعالى اور مجاہد اس آیت كى تفسير ميں كہتے ہيں کہ اس سے مراد گانا بجانا ہے. (تفسير طبرى ( 3 / 451 ) شیخ سعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: " لھو الحديث " يعنى لغو بات خريدنے كى تفسير ميں صحابہ كرام رض اور تابعين عظام كى تفسير ہى كافى ہے، انہوں نے اس كى تفسير يہى كى ہے كہ: يہ گانا بجانا، ہے، ابن عباس ، اور ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہم سے يہ صحيح ثابت ہے. ابو الصھباء كہتے ہيں: ميں نے ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما كو اللہ تعالىٰ كے فرمان: ’’ و من الناس من يشترى لھو الحديث ‘‘ كے متعلق سوال كيا كہ اس سے مراد كيا ہے تو ان كا جواب تھا: اس اللہ تعالى كى قسم جس كے علاوہ كوئى اور معبود برحق نہيں اس سے مراد گانا بجانا ہے ـ انہوں نے يہ بات تين بار دھرائى ـ. اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے صحيح ثابت ہے كہ اس سے مراد گانا بجانا ہى ہے. اور لھو الحديث كى تفسير گانے بجانے، اور عجمى لوگوں كى باتيں اور ان كے بادشاہ اور روم كے حكمران كى خبروں كى تفسير ميں كوئى تعارض نہيں، يا اس طرح كى اور باتيں جو مكہ ميں نضر بن حارث اہل مكہ كو سنايا كرتا تھا تا كہ وہ قرآن مجيد كى طرف دھيان نہ ديں، يہ دونوں ہى لھو الحديث ميں شامل ہوتى ہيں. اسى ليے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے كہا تھا: لھو الحديث سے مراد باطل اور گانا بجانا ہے. تو بعض صحابہ کرام رض نے يہ بيان كيا ہے، اور بعض نے دوسرى بات بيان كي ہے، اور بعض صحابہ كرام رض نے دونوں كو جمع كر كے ذكر كيا ہے، اور گانا بجانا تو شديد قسم كى لہو ہے، اور بادشاہوں اور حكمرانوں كى باتوں سے زيادہ نقصان دہ ہے، كيونكہ يہ زنا كا زينہ اور پيش خيمہ ہے، اور اس سے نفاق و شرک پيدا ہوتا ہے، اور شيطان كى شراكت ہوتى ہے، اور عقل ميں خمار پيدا ہو جاتا ہے، اور گانا بجانا ايک ايسى چيز ہے جو قرآن مجيد سے روكنے اور منع كرنے والى باطل قسم كى باتوں ميں سب سے زيادہ شديد روكنے والى ہے، كيونكہ اس كى جانب نفس بہت زيادہ ميلان ركھتا ہے، اور اس كى رغبت كرتا ہے. تو ان آيات كے ضمن ميں يہ بيان ہوا ہے كہ قرآن مجيد كے بدلے لہو لعب اور گانا بجانا اختيار كرنا تا كہ بغير علم كے اللہ كى راہ سے روكا جائے اور اسے ہنسى و مذاق بنايا جائے يہ قابل مذمت ہے، اور جب اس پر قرآن مجيد كى تلاوت كى جائے تو وہ شخص منہ پھير كر چل دے، گويا كہ اس نے سنا ہى نہيں، اور اس كے كانوں ميں پردہ ہے، جو كہ بوجھ اور بہرہ پن ہے، اور اگر وہ قرآن مجيد ميں سے كچھ كو جان بھى لے تو اس سے استھزاء اورمذاق كرنے لگتا ہے، تو يہ سب كچھ ايسے شخص ہى صادر ہوتا ہے جو لوگوں ميں سب سے بڑا كافر ہو، اور اگر بعض گانے والوں اور انہيں سننے والوں ميں سے اس كا كچھ حصہ واقع ہو تو بھى ان كے ليے اس مذمت كا حصہ ہے " ديكھيں: اغاثۃ اللھفان ( 1 / 258 - 259 ). اور نافع رحمہ اللہ بيان كرتےہيں كہ: " ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے بانسرى بجنے كى آواز سنى تو انہوں نے اپنے كانوں ميں انگلياں ركھ ليں اور راستے سے ہٹ كر مجھے كہنے لگے نافع كيا تم كچھ سن رہے ہو ؟ تو ميں نے عرض كيا: نہيں، تو انہوں نے اپنے كانوں سے انگلياں نكال ليں، اور كہنے لگے، ميں ايک بار نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ تھا تو انہوں نے آواز سنى تو اسى طرح كيا " (صحيح سنن ابو داود.) كچھ لوگ سمجھتے ہيں كہ يہ حديث اس كى حرمت كى دليل نہيں كيونكہ اگر ايسا ہى ہوتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كو اپنے كان بند كرنے كا حكم ديتے، اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بھى اسى طرح نافع كو حكم ديتے! تو اس كا جواب يہ ديا جاتا ہے كہ: وہ اسے غور سے كان لگا كر نہيں سن رہے تھے بلكہ اس كى آواز ان كے كان ميں پڑ گئى تھى، اور سامع اور مستمع ميں فرق پايا جاتا ہے، سامع صرف سننے والے كو كہتے ہيں،اور مستمع كان لگا كر سننے والے كو كہتے ہيں. شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
لگتا ہے كہ دونوں اماموں كى كلام ميں مذكور سماع مكروہ ہو، اور ضرورت كى بنا پر مباح كيا گيا ہو، جيسا كہ امام مالك رحمہ اللہ كے قول ميں آگے بيان كيا جائيگا، واللہ اعلم. اس كے متعلق آئمہ اسلام كے اقوال: قاسم رحمہ اللہ كہتے ہيں: " گانا بجانا باطل ميں سے ہے " اور حسن رحمہ اللہ كہتے ہيں: " اگر وليمہ ميں لہو اور گانا بجانا ہو تو اس كى دعوت قبول نہيں "ديكھيں: الجامع للقيروانى صفحہ نمبر ( 262 - 263 ).
علامہ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اور حنبلى مسلك كے محقق ابن قدامہ المقدسى رحمہ اللہ كہتے ہيں: " گانے بجانے كى تين اقسام ہيں: پہلى قسم: حرام.وہ بانسرى اور سارنگى اور ڈھول اور گٹار وغيرہ بجانا ہے.
اور ايك دوسرى جگہ پر كہتے ہيں:
طبرى رحمہ اللہ كہتے ہيں: " سب علاقوں كے علماء كرام گانے بجانے كى كراہت اور اس سے روكنے پر متفق ہيں، صرف ان كى جماعت سے ابراہيم بن سعد،اور عبيد اللہ العنبرى نے عليحدگى اختيار كى ہے. اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان تو يہ ہے كہ:
پہلے ادوار ميں كراہت كا لفظ حرام كے معنى ميں استعمال ہوتا تھا ليكن پھر بعد ميں اس پر تنزيہ كا معنى كا غالب آگيا، اور يہ تحريم كا معنى اس قول ليا گيا ہے: اور اس سے روكا جائے، كيونكہ جو كام حرام نہيں اس سے روكا نہيں جاتا، اور اس ليے بھى كہ دونوں حديثوں ميں اس كا ذكر ہوا ہے، اور اس ميں بہت سختى سے منع كيا گيا ہے. اور امام قرطبى رحمہ اللہ نے ہى اس اثر كو نقل كيا ہے، اور اس كے بعد وہى يہ كہتے ہيں: " ہمارے اصحاب ميں سے ابو الفرج اور ابو قفال كہتے ہيں: گانا گانے اور رقص كرنے والے كى گواہى قبول نہيں ہو گى " ميں كہتا ہوں: اور جب يہ چيز ثابت ہو گئى كہ يہ جائز نہيں تو پھر اس كى اجرت لينا بھى جائز نہيں" شيخ فوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:
ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: " گانے بجانے كے آلات تيار كرنا جائز نہيں "ديكھيں: المجموع ( 22 / 140 ). اور دوسرى جگہ كہتے ہيں: " گانے بجانے كے آلات مثلا ڈھول وغيرہ كا تلف اور ضائع كرنا اكثر فقھاء كے ہاں جائز ہے، امام مالك رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے، اور امام احمد كى مشہور روايت يہى ہے "ديكھيں: المجموع ( 28 / 113 ). اور ان كا يہ بھى كہنا ہے: " چھٹى وجہ: ابن منذر رحمہ اللہ گانے بجانے اور نوحہ كرنے كى اجرت نہ لينے پر علماء كرام كا اتفاق ذكر كرتے ہوئے كہتے ہيں: اہل علم ميں سے جس سے بھى ہم نے علم حاصل كيا ہے ان سب كا گانے والى اور نوحہ كرنے والى كو روكنے پر اتفاق ہے، شعبى اور نخعى اور مالك نے اسے مكروہ كہا ہے، اور ابو ثور نعمان ـ ابو حنيفہ ـ اور يعقوب اور محمد ـ امام ابو حنيفہ كے دونوں شاگرد ـ رحمہم اللہ كہتے ہيں: گانا گانے اور نوحہ كرنے كے ليے اجرت پر كوئى بھى چيز دينا جائز نہيں، اور ہمارا قول بھى يہى ہے " اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائلجلد 02 |