سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(619) فرض یا نفل نماز کی ایک رکعت زیادہ پڑھنے کے لیے کھڑا ہونے کی صورت

  • 24629
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 743

سوال

(619) فرض یا نفل نماز کی ایک رکعت زیادہ پڑھنے کے لیے کھڑا ہونے کی صورت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی شخص بھولے سے فرض یا نفل نماز کی ایک رکعت زیادہ پڑھنے کے لیے کھڑا ہو جائے۔ امام ہو یا منفرد۔ یاد آنے پر انھیں منسوخ کرے۔ وہ بیٹھ جائے یا وہ دو رکعت جاری رکھے، اور پھر اس کے ساتھ دانستہ جفت بنانے کی غرض سے۔مزید ایک رکعت پڑھے یا بس وہی رکعت پڑھ کر سجدۂ سہو کرے۔ کیا محدثین کا اس بارے میں اختلاف ہے۔ حدیث کے ساتھ گہرا شغف رکھنے والوں کا اس بارے میں کیا مذہب ہے؟ نبی کریمﷺ کے زمانے میں احکام بدلتے رہتے تھے اس لیے صحابہ رضی اللہ عنہم  نے سبحان اﷲ، سبحان اﷲ نہیں کہا۔ جب آپﷺ نے ایک رکعت زیادہ پڑھ لی تھی۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسا شخص یاد آنے پر بیٹھ جائے۔ اسے جفت بناء کر مزید اضافہ نہ کرے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: لا علمی میں اگر مقتدی کھڑے ہو جائیں، تو ان کی نماز باطل نہ ہو گی۔ البتہ اگر انھیں غلطی کا علم ہو جائے، تو انھیں امام کی اتباع نہیں کرنی چاہیے، بلکہ بیٹھے انتظار کرتے رہیں اور جب وہ سلام پھیرنے لگے، تو اس کے ساتھ سلام پھیر دیں یا اس سے قبل ہی سلام پھیر دیں، مگر انتظار احسن ہے۔ الفتاویٰ الکبریٰ(۱۳۷/۱) نیز علامہ صنعانی رحمہ اللہ  حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہما  کی شرح میں فرماتے ہیں: یہ ( پانچویں رکعت میں امام کی متابعت) صحابہ رضی اللہ عنہم  کے ساتھ خاص تھا۔اس لیے کہ عصرِ نبوت میں احکام میں تغیر و تبدیلی ممکن تھا۔ اگر آج ایسی صورت پیدا ہو جائے، تو مقتدیوں کو ’’سبحان اﷲ‘‘ کہنا چاہیے۔ اگر امام بیٹھ جائے، تو بہتر۔ ورنہ انھیں بیٹھے انتظار کرنا چاہیے۔ یہاں تک کہ اس کے تشہد کے ساتھ تشہد پڑھیں اور اس کے سلام کے ساتھ سلام پھیردیں۔ سبل السلام:۳۴۹/۱

اور علماء میں سے امام مالک، شافعی، احمد، اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ  وغیرہ اس طرف گئے ہیں۔ اگر کوئی ظہر کی پانچ رکعات پڑھ لے، تو اس کی نماز درست ہے، لیکن سجدۂ سہو کرے گا۔ اگرچہ وہ چوتھی رکعت میں نہ بیٹھا ہو۔ ابن مسعو د رضی اللہ عنہ  کی حدیث

’قَالُوا صَلَّیتَ خَمسًا۔ فَسَجَدَ سَجدَتَینِ بَعدَ مَا سَلَّمَ‘"صحیح البخاری، بَابُ إِذَا صَلَّی خَمْسًا، رقم:۱۲۲۶"سے ان کا استدلال ہے۔ لیکن حنفیہ کا کہنا ہے، کہ چوتھی رکعت میں عدمِ قعدہ کی صورت میں سجدوں سے قبل لوٹ کر قعدہ کرے، کیونکہ اس میں نماز کی اصلاح ہے۔المرعاۃ (۳۱/۲)۔ بعض اہلِ علم کا کہنا ہے، کہ پانچویں رکعت کے ساتھ چھٹی ملالے اور اخیر میں سجدۂ سہو کرے۔ چار فرض اور دو نوافل بن جائیں گے۔ لیکن اس مسلک کی کوئی قابلِ اعتماد دلیل معلوم نہیں ہو سکی۔

البتہ حدیث سے یہ ثابت ہے، کہ پانچویں رکعت کے ساتھ سجدۂ سہو مل کر قائمقام چھٹی رکعت بن کر نماز شفع(جفت) بن جاتی ہے۔(صحیح مسلم،بَابُ السَّہْوِ فِی الصَّلَاۃِ وَالسُّجُودِ لَہُ،رقم:۵۷۱) جب کہ اصل میں بھی وِتر کی بجائے شفع تھی۔ اصلی کیفیت لوٹ آئی۔ اختلاف کا ذکر ہو چکا ۔ بظاہر ترجیح پہلے مسلک کو ہے۔ جسے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  اور علامہ صنعانی نے اختیار کیا ہے۔ (واﷲ تعالیٰ اعلم)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:536

محدث فتویٰ

تبصرے