السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے محلے کے خطیب صاحب نے ۲۴ مئی ۱۹۹۴ء کو عیدِ قربان کی نماز پڑھانے سے پہلے عام لوگوں کو نماز پڑھنے کی ترکیب بتا کر کہاکہ اگر مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو تم میں سے کوئی نہ کوئی سبحان اﷲ زور سے ضرور کہے تاکہ میں سجدۂ سہو ادا کر سکوں۔
اس سے پہلے میں نے ایک دینی مسائل کی کتاب میں یہ پڑھا تھا کہ عیدین کی نماز میں سجدۂ سہو نہیں ہوتا۔ حکمت اس میں یہ بتائی تھی کہ اِن موقعوں پر عوام کا بے پناہ ہجوم ہوتا ہے۔ اگر امام سجدۂ سہو کرے گا تو آخر تک ہر نمازی کی سمجھ میں اِس بات کا آنا مشکل ہے اور گڑ بڑ ہونے کا امکان ہے اور دو عملی کا مظاہرہ ہو جائے گا بعض لوگ امام کی اتباع کریں گے اور بعض نہیں کریں گے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اصولِ راجح اور محقق مسلک کے مطابق نماز،چاہے فرض ہو یا نفلی، ہر دو صورت میں نسیان کی شکل میں سجودِ سہو مشروع ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے:
’بَابُ السَّهوِ فِی الفَرضِ، وَالتَّطَوُّعِ، وَ سَجَدَ ابنُ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمَا سَجدَتَینِ بَعدَ وِترِهٖ ۔‘
یعنی ’’فرضی اور نفلی نماز میں سہو کی صورت میں کیا ہونا چاہیے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے وِتر کے بعد دو سجدے کیے تھے۔ ‘‘
یہ ’’أثر‘‘ لانے سے مصنف کا مقصود نوافل میں بھی ’’سجودِ سہو‘‘ کا اثبات ہے۔ کیونکہ راجح مسلک کے مطابق وِتر واجب نہیں۔ اسی طرح اہلِ علم نے اس مسئلہ پر بھی گفتگو کی ہے، کہ نمازِ عید کا کیا حکم ہے ؟ ایک گروہ کے نزدیک واجب ہے، جب کہ دوسرا گروہ اس کی محض سنیت یا سنت مؤکدہ ہونے کا قائل ہے، لیکن دلائل کی رُو سے بظاہر اوّل الذکر مسلک راجح ہے۔ قرآن میں ہے:﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانحَر﴾(الکوثر:۲) وجہ استدلال یہ ہے، کہ صیغۂ امر وجوب کا متقاضی ہے۔ پھر نبیﷺ نے نمازِ عید پر مداومت کی ہے۔ کبھی ترک نہیں کی۔ مزید آنکہ یہ دین کا ظاہری عظیم شِعار ہے۔ واضح ہو، کہ اصل اختلاف یہ نہیں، کہ مجمع کی کثرت کی وجہ سے آواز لوگوں کو سنائی دیتی ہے یا کہ نہیں۔ اگر یہی علت فرض کر لی جائے، پھر تو حج کے دوران یا آگے پیچھے، بیت اﷲ میں فرض نمازوں میں بھی سجود سہو نہیں ہونے چاہئیں۔ حالانکہ کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں۔
اصل صورتِ حال یہ ہے، کہ بعض سلف کے نزدیک نفلی نماز میں سجدۂ سہو نہیں ۔ ممکن ہے اس دینی کتاب کے مؤلف نے اسے نفلی نماز سمجھ کر کہا ہو، کہ اس میں سجدۂ سہو نہیں، جب کہ اصل معاملہ اس کے برعکس ہے۔ لہٰذا ’’صلوٰۃِ عید‘‘ میں سہو کی صورت میں بلا تردّد سجدۂ سہو ہونا چاہیے۔ بناء بریں مُشارٌ إلیہ موصوف خطیب صاحب کا موقف درست ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب