السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا سجدئہ عبادت اور سجدئہ تعظیمی کے حکم میں کوئی فرق ہے؟
مندرجہ ذیل مسائل میں قرآن و حدیث اور فہم سلف کے مطابق آپکی رہنمائی مطلوب ہے :
۱۔ سجدہ لغیراﷲکو ہمارے ہاں بالاتفاق حرام سمجھا جاتا ہے لیکن بعض لوگ ’’سجدہ تعظیمی‘‘اور ’’سجدہ عبادت‘‘میں فرق کرتے ہیں ۔ اوّل الذکر کو حرام اور ثانی الذکر کو شرک وکفر اور مُخرج عن الملۃ قرار دیتے ہیں ۔ کیا ان کا یہ موقف کتاب و سنت اور فہم سلف کے مطابق ہے؟ نیز کیااس میں فاعل کی نیت اور اعتقاد کا کوئی دخل ہے یا نہیں ؟
۲۔ کیا تعظیمی سجدہ، تعظیمی رکوع، تعظیمی قیام، تعظیمی قعود، تعظیمی طواف، یہ سب شرک ہیں یا صرف تعظیمی سجدہ ہی شرک ہے؟ اور کیا مندرجہ بالامظاہر عبودیت زندہ و مردہ (یعنی قبر والوں اور حکام و اساتذہ یا قومی ترانے وغیرہ) کے لئے یکساں حکم رکھتے ہیں ، یا ان میں کوئی فرق ہے ؟
۳۔ اگر یہ شرک ہے تو شرک کس درجے کا؟ اس کا مرتکب خارج عن الملۃ ہے یا نہیں ؟ اس کا ذبیحہ کھانا اور اس سے رشتہ کرنا کیسا ہے؟
نوٹ:علمائے سلف میں سے مذکورہ بالا پہلووں پر جن علماے کرام نے جس پہلو پر بھی گفتگو کی ہو، براہِ کرم اس کا حوالہ بھی درج کردیجئے۔ جزاکم اللہ (ابوعبدالرب عبدالقدوس سلفی، اسلام آباد)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
الجواب بعون الوہاب:سجدہ تعظیمی اور سجدئہ عبادت میں کوئی فرق نہیں ، دونوں شرک ہیں جو لوگ سجدئہ تعظیمی کو شرک قرار نہیں دیتے، ان کا اشکال یہ ہے کہ سجدئہ تعظیمی پہلی اُمتوں میں چلا آرہا تھا اور صرف اسلام نے اسے ممنوع اور حرام قرار دیا ہے، ورنہ سجدئہ عبادت تو غیراللہ کے لئے شرک ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ بلا شبہ شرک جملہ شرائع میں سے کسی شریعت میں جائز نہیں رہا، تاہم اس کے مظاہر کی شکلیں بدلتی رہیں ، اس طرح وہ شریعت کی جزئیات بن جاتی ہیں ۔جس طرح آدم علیہ السلام کے عہد میں صلبی اولاد کا آپس میں نکاح جائز تھا جو بعد میں حرام ہوگیا اور اگر آج کوئی اس کے جواز کا دعویدار ہو تو وہ کافر ہے ،کیونکہ اس نے خواہش پرستی کو معبود بنالیا۔ قرآنِ کریم میں ہے :
﴿اَفَرَئَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِِلٰهَهٗ هَوَاهُ﴾(الجاثیہ:۲۳)
’’بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے۔‘‘
یہی کیفیت سجدئہ تعظیمی ہو یاعبادت، ہردو کی ہے۔ اگر وہ اللہ کے حکم سے ہے تو وہ غیر کی عبادت میں شامل نہیں اور اگر وہ اپنی مرضی سے ہے تو وہ غیر کی عبادت ہے جو شرک کے زمرہ میں داخل ہے، کیونکہ حکم صرف اللہ کا چلتا ہے، کسی کو اس میں دخل نہیں اور دخل اندازی کرنے والا مشرک ہے۔ مثلاً کعبہ مشرفہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا عین اللہ کی عبادت ہے اور اس کے ماسوا کسی اور مکان کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا عین شرک ہے، کیونکہ طریقہ عبادت مقرر کرنا صرف اللہ کا اختیار ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
﴿اَمْ لَهُمْ شُرَکَـٰٓوُا شَرَعُوا لَهُمْ مِّنَ الدِّینِ مَا لَمْ یَاْذَنْم بِهٖ اللّٰهُ﴾(الشوری:۲۱)
’’کیا اُن کے وہ شریک ہیں جنہوں نے اُن کے لئے ایسا دین مقرر کیاہے جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا۔‘‘
دوسرے مقام پر فرمایا:
﴿لاَ تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلاَ لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلَّهِ الَّذِیْ خَلَقَهُنَّ اِِنْ کُنْتُمْ اِِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ﴾(فصلت:۳۷)
’’تم لوگ نہ تو سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو بلکہ اللہ ہی کو سجدہ کرو جس نے ان چیزوں کو پیدا کیا ہے ، اگر تمہیں اس کی عبادت منظور ہے۔‘‘
اس آیت ِکریمہ میں مطلقاً غیر اللہ کو سجدہ کرنے سے منع کیا گیا ہے اور صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے۔ ہمارے استاذ محدث روپڑی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں کہ
’’اس آیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ حکم سورج، چاند پرہی موقوف نہیں بلکہ سجدہ محض خالق کا حق ہے، مخلوق کا نہیں ؛ خواہ سورج، چاند ہو یا کوئی اور مخلوق ہو اور﴿إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ﴾ سے مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی سجدہ غیر کوہوگیا تو پھر خاص اللہ کے عابد نہیں رہو گے، بلکہ مشرک ہوجاو گے۔ اس کی مثال ایسی ہے، جیسے قرآنِ مجید میں ہے:﴿فَاتَّبِعُونِی﴾ (آل عمران:۳۱)
‘‘کہہ دیں کہ اگر تم مجھ ﷺسے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر میرے مقابلہ میں کسی اور کی اتباع کرو گے، خواہ کسی طرح سے ہو تو پھر اللہ کی محبت کا دعویٰ جھوٹا ہے۔ ٹھیک اسی طرح آیت ِبالا کا مطلب سمجھ لینا چاہئے کہ جب غیر کو سجدہ ہوا(خواہ اس کا نام سجدئہ تعظیمی رکھو یا کچھ اور) تم خاص اللہ کے عابد نہیں رہ سکتے بلکہ مشرک ہوجاؤ گے۔ گویا ہماری شریعت میں سجدہ مطلقاً حرام کردیا گیا ہے خواہ اس کا نام کوئی کچھ بھی رکھے اور اس کی تائید احادیث سے بھی ہوتی ہے۔ فتاویٰ ابن تیمیہ رحمہ اللہ میں ہے:
اما تقبیل الارض ووضع الراس ونحو ذلك مما فیه السجود،مما یفعل قدام بعض الشیوخ وبعض الملوك فلا یجوز،بل لایجوز الانحناء کالرکوع ایضا کما قالوا للنبی ﷺ:الرجل منا یلقی اخاہ اینحنی له؟ قال:)لا( ولما رجع معاذ من الشام سجد للنبی ﷺ فقال: ما هذا یا معاذ؟ قال:یا رسول اﷲ ! رایتهم فی الشام یسجدون لاساقفتهم ویذکرون ذلك عن انبیائهم فقال:)کذبوا علیهم لوکنت آمرًا احدا ان یسجد لاحد لامرت المراة ان تسجد لزوجها من اجل حقه علیها۔ یا معاذ ! إنه لا ینبغی السجود إلا ﷲ(واما فعل ذلك تدینا وتقربا فهٰذا من اعظم المنکرات،ومن اعتقد مثل هذا قربة وتدینا فهو ضالّ مفتر،بل یبین له ان هٰذا لیس بدین ولا قربة فإن اصرعلی ذلك اُستِیب فإن تاب وإلا قتل‘فتاویٰ ابن تیمیه :ج۱ص۱۱۶، طبع جدید :۱۳۷/۲
’’زمین کو بوسہ دینا اور سر زمین پر رکھنا اور ایسی ہی وہ صورتیں جس میں بعض مشائخ اور بعض بادشاہوں کے سامنے سجدہ کیا جاتا ہے تو یہ کچھ جائز نہیں بلکہ جھکنا مثل رکوع کے بھی جائز نہیں ۔ چنانچہ صحابہؓ نے رسول اللہ ﷺسے کہا کہ ہم میں سے کوئی اپنے بھائی سے ملتا ہے تو کیا اس کے لئے جھکے ؟تو فرمایا :نہیں اور جب حضرت معاذؓ سفر شام سے واپس آئے توانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کیا آپﷺ نے فرمایا:اے معاذ! یہ کیا؟ کہا:میں نے اہل کتاب کو دیکھا کہ وہ اپنے علما کو ایسے ہی سجدہ کرتے ہیں ۔ فرمایا:یہ جھوٹ ہے۔ اگر میں کسی کو کسی کے لئے سجدہ کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا ، اس کے شوہر کے اس پر حق کی وجہ سے۔ اے معاذؓ! سواے اللہ کے کسی کے لئے سجدہ لائق نہیں ۔‘‘ اور دین اور ثواب سمجھ کر سجدہ کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے (البتہ قتل وغیرہ کے ڈر سے ایسا کیا جائے تو وہ کبیرہ گناہ میں شامل نہیں بلکہ بعض کے نزدیک جائز ہے) جو اس کا اعتقاد رکھے، وہ گمراہ مفتری ہے۔ اس کو سمجھایا جائے کہ یہ دین اور ثواب نہیں ، پھر بھی اصرار کرے تو اس سے توبہ طلب کی جائے اور اگر توبہ نہ کرے تو قتل کردیاجائے۔‘‘
قریب قریب اس قسم کی روایتیں مشکوٰۃ کے باب عشرۃ النساء وغیرہ میں موجود ہیں کہ غیراللہ کو سجدہ جائز نہیں ، اگر جائز ہوتا تو عورت کو خاوند کے لئے سجدہ کاحکم ہوتا اور مشکوٰۃ کے اسی باب میں آپﷺ کی قبر کو سجدہ کرنے کی ممانعت بھی مذکور ہے۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یا آپﷺ کی قبر کو سجدہ کی اجازت نہیں تو غیر کے لئے کس طرح اجاز ت ہوگی بلکہ مشکوٰۃ باب القیام میں قیامِ تعظیمی سے بھی آپﷺ نے منع فرمایا ہے تو سجدہ کس طرح جائز ہوگا؟ خلاصہ یہ ہے کہ نماز کی مشابہت کسی غیر کے لئے جائز نہیں ، نہ قیام نہ رکوع نہ سجدہ۔ یہی وجہ ہے کہ قبروں میں ممانعت ہے، تاکہ عبادتِ قبور سے مشابہت نہ ہو اور جب مشابہت منع ہے تو حقیقۃ قیام یا رکوع یا سجدہ غیر کے لئے کیونکر جائز ہوگا ۔‘‘ ( فتاویٰ اہلحدیث :۱۴۷/۱ تا ۱۵۰)
سعودی عرب کی ’’دائمی کمیٹی برائے فتاویٰ و بحوثِ علمیہ ’’کا فتویٰ ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا شرک ہے، اس طرح غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنا بھی شرک ہے۔ اس کے شرعی حکم کی وضاحت کے باوجود اگر کوئی غیر اللہ کو سجدہ کرتا ہے یا غیر اللہ کے لئے جانور ذبح کرتا ہے تو اس کی فرض اور نفلی عبادت قبول نہیں ہوتی، اگرچہ وہ نماز، روزہ کرے۔
مشرک جب شرک پر مرجائے تو اس کے اعمال قبول نہیں ہوتے۔ ہاں البتہ موت سے پہلے خالص توبہ کی صورت میں اس کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں ۔ ( فتویٰ نمبر:۴۳۶۰)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب