السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض لوگ رکوع سے کھڑے ہو کر سینہ پر ہاتھ باندھتے ہیں اور دلیل پیش کرتے ہیں:’’اذا قام…الخ‘‘کیا حدیث ِ مذکور سے یہ استدلال صحیح ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز میں بعد از رکوع ہاتھ باندھنے کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔’’إِذَا قَامَ ‘‘ اتنا عام نہیں جتنا کہ ان لوگوں نے سمجھ لیا ہے۔ بالفرض اگر ’إِذَا‘ کو عام مان لیا جائے، تو بتائیے! قرآن کی ان آیات کا مفہوم کیا ہوگا؟
﴿وَإِذا قُرِئَ عَلَيهِمُ القُرءانُ لا يَسجُدونَ ﴿٢١﴾... سورة الانشقاق
’’اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جاتا ہے تو سجدہ نہیں کرتے۔‘‘
﴿إِذا تُتلىٰ عَلَيهِم ءايـٰتُ الرَّحمـٰنِ خَرّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ﴿٥٨﴾... سورة مريم
’’ جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی تھیں، تو سجدے میں گر پڑتے اور روتے رہتے تھے۔‘‘
﴿وَإِذا قُرِئَ القُرءانُ فَاستَمِعوا لَهُ وَأَنصِتوا لَعَلَّكُم تُرحَمونَ ﴿٢٠٤﴾... سورة الاعراف
’’اور جب قرآن پڑھا جائے، تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو۔ تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
اصل بات یہ ہے کہ ’إِذَا‘ کا عموم اپنے محل و مقام کی مناسبت کے اعتبار سے ہوتا ہے، نہ کہ جیسا ان لوگوں نے سمجھا ہے۔ (والتوفیق بید اﷲ)
اس بارے میں علامہ البانی رحمہ اللہ کا نظریہ بھی ملاحظہ فرمائیں:
’ وَلَستُ أَشُكُّ أَنَّ وَضعَ الیَدَینِ عَلَی الصَّدرِ فِی هٰذَا القِیَامِ بِدعَةٌ ضَلَالَةٌ، لِأَنَّهٗ لَم یَرِد مُطلَقًا فِی شَیئٍ مِن أَحَادِیثِ صِفَةِ الصَّلٰوةِ .وَ مَا أَکثَرَهَا . وَ لَو کَانَ لَهٗ أَصلٌ لَنُقِلَ إِلَینَا ، وَ لَو مِن طَرِیقٍ وَاحِدٍ. وَ یُؤَیِّدُهٗ أَنَّ أَحَدًا مِّنَ السَّلَفِ، لَم یَفعَلهُ، وَ لَا ذَکَرَ أَحَدٌ مِّن أَئِمَّةِ الحَدِیثِ فِیمَا أَعلَم ‘صفه الصلوٰة،ص:۱۱۵،طبع:۳
یعنی ’’مجھے اس بارے میں ذرا برابرشک و شبہ نہیں، کہ اس قیام میں ہاتھ باندھنا بدعت اور گمراہی ہے۔ نماز کے اوصاف میں وارد کثرتِ احادیث کے باوجود کسی میں اس کا ذکر نہیں ملتا۔ اس کی اگر کوئی اصل ہوتی تو ضرور منقول ہوتی۔ اگرچہ ایک ہی طریق سے کیوں نہ ہو، اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے، کہ سلف میں سے کسی ایک کا اس کے مطابق عمل نہ تھا اور جہاں تک مجھے علم ہے ، ائمۂ حدیث میں سے کسی نے اس کا تذکرہ نہیں کیا۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب