السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اسلامیہ پارک کی ایک مسجد میں نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔ امام صاحب نے بتایا کہ جب تک امام ’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہٗ ‘کہہ نہ چکے مقتدی رکوع سے نہ اٹھے حالانکہ مشہور یہی ہے کہ امام کے رکوع سے اٹھنے کے بعد رکوع سے اٹھا جائے۔ کیا ان کا قول درست ہے۔؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سنن ابوداؤد کی روایت میں واضح مذکور ہے کہ
’ فَاِنَّ الاِمَامَ یَرکَعُ قَبلَکُم، وَ یَرفَعُ قَبلَکُم فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِﷺ:فَتِلكَ بِتِلكَ‘"سنن أبی داؤد،بَابُ التَّشَهُّدِ ،رقم:۹۷۲، صحیح مسلم، بَابُ التَّشهُّدِ فِی الصَّلَاةِ،رقم:۴۰۴
"امام تم سے پہلے رکوع کرتا ہے اور تم سے پہلے رکوع سے اٹھتا ہے۔ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: مقتدی کی کمی بعد میں پوری ہو جاتی ہے۔‘‘
اس روایت سے معلوم ہوا کہ امام کے رکوع سے اٹھنے کے بعد کھڑے ہونے والی بات حدیث ِ رسولﷺ کے موافق ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ابوداؤد کی روایت میں یہ زیادتی ہے۔
’وَلَا تَرکَعُوا حَتّٰی یَرکَعَ، وَ لَا تَسجُدُوا حَتّٰی یَسجُدَ‘"سنن ابی داؤد،بَابُ الْإِمَامِ یُصَلِّی مِنْ قُعُودٍ،رقم:۶۰۳
" یعنی تم رکوع مت کرو۔ یہاں تک کہ امام رکوع کرے اور تم سجدہ مت کرو یہاں تک کہ امام سجدہ کرلے۔ پھر فرماتے ہیں:
’ وَهِیَ زَیَادَةٌ حَسَنَةٌ تَنفِی اِحتَمَالَ اِرَادَةِ المُقَارَنَةِ مِن قَولِهٖ: ’اِذَا کَبَّرَ فَکَبِّرُوا ‘ فتح الباری:۱۷۹/۲
’’یہ ایک اچھی زیادتی ہے۔ اس سے ’’جب امام تکبیر کہے۔ تب تم تکبیر کہو‘‘ میں جو مقارنت کا احتمال ہے اس کی نفی ہوتی ہے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب