السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آج کل ہمارے ہاں یہ مسئلہ زیرِبحث ہے کہ مقتدی’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہُ ‘نہ کہے۔ کیونکہ حدیث میں وارد ہے کہ’ إِذَا قَالَ الإِمَامُ سَمِعَ اللّٰهُ لِمَن حَمِدَهٗ، فَقُولُوا: رَبَّنَا وَ لَكَ الحَمدُ‘"صحیح البخاری،بَابُ فَضْلِ اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الحَمْدُ،رقم:۷۹۶" اور امام المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ نے ’بَابَ مَا یَقُولُ الإِمَامُ، وَ مَن خَلفَهٗ إِذَا رَفَع رَاسَهٗ مِنَ الرَّکُوعِ‘ کے تحت یہی حدیث رقم فرمائی ہے جس سے امام اور مقتدی میں تقسیم کی دلیل أخذ کی جاتی ہے کہ امام کے لیے ’سَمِعَ اللّٰہُ …الخ‘ اور مقتدی کے لیے ’رَبَّنَا لَکَ الحَمدُ‘ہے۔
حالانکہ ’’صحیح بخاری میں ہے کہ: ’کَانَ النَّبِیُّ ﷺ قَالَ: سَمِعَ اللّٰهُ لِمَن حَمِدَهٗ. فَقَالَ: اَللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَلَكَ الحَمدُ۔‘" صحیح البخاری،بَابُ فَضْلِ اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الحَمْدُ،رقم:۷۹۵" اب سوال یہ ہے کہ جب امام ’ رَبَّنَا لَکَ الحَمد‘ کہہ سکتا ہے تو مقتدی کے لیے ’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہٗ‘ کی ممانعت کیوں؟ اگر مقتدی کے لیے ’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہٗ‘ کی ممانعت ثابت کی جائے تو حدیث:’ إِذَا قَالَ الإِمَامُ﴿غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیهِم وَ لَا الضَّالِّینَ﴾فَقُولُوا: آمِینَ‘"صحیح البخاری، بَابُ جَهْرِ المَأْمُومِ بِالتَّأْمِینِ،رقم:۷۸۲" سے مقتدی کے لیے سورۂ فاتحہ ادھوری چھوڑ کر آمین ہی کہنا ہو گا جب کہ ایسی نماز ’’خداج‘‘ غیر تمام کے زمرہ میں ہوگی۔ کیونکہ حدیث ہے:
’ لَا صَلٰوةَ لِمَن لَّم یَقرَأ بِفَاتِحَةِ الکِتَابِ ‘صحیح البخاری، باب وُجُوبِ القِرَائَةِ لِلاِمَامِ وَالمَامُومِ فِی الصَّلٰوةِ کُلِّهَا … الخ،رقم:۷۵۶،صحیح مسلم:۳۹۴
پھر آپﷺ کا فرمان: ’ اِنَّمَا جُعِلَ الاِمَامُ لِیُؤتَمَّ بِهٖ‘ بھی اس امر کا مقتضی ہے، کہ امام اور مقتدی میں تقسیم نہ کی جائے بلکہ ’ إِذَا کَبَّرَ الإِمَامُ فَکَبِّرُوا، وَ إِذَا رَکَعَ فَارکَعُوا، وَ إِذَا سَجَدَ فَاسجُدُوا، وَ اِذَا قَرَأَ فأَنصِتُوا‘"سنن ابن ماجه،بَابُ إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا ،رقم:۸۴۶"یعنی قرأتِ قرآن کے ماسوا باقی تمام اعمال میں امام کی اقتداء کی جائے۔
پھر امام ترمذی رحمہ اللہ کے یہ الفاظ :’قَالَ ابنُ سِیرِینَ، وَ غَیرُهٗ یَقُولُ مَن خَلفَ الاِمَامِ: سَمِعَ اللّٰهُ لِمَن حَمِدَهٗ رَبَّنَاوَلَكَ الحَمدُ مِثلَ مَا یَقُولُ الاِمَامُ. وَ بِهٖ یَقُولُ الشَّافِعِیُّ، وَ اِسحَاقُ‘ بھی امام اور مقتدی کی عدمِ تقسیم پر دال ہیں اور ’’دار قطنی‘‘ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
’ کُنَّا اِذَا صَلَّینَا خَلفَ رَسُولِ اللّٰهِ ﷺ قَالَ: سَمِعَ اللّٰهُ لِمَن حَمِدَهٗ ۔ قَالَ: من وَّرَائَهٗ: سَمِعَ اللّٰهُ لِمَن حَمِدَهٗ ‘
اس روایت میں اظہر من الشمس ہے کہ امام اور مقتدی دونوں ہی ’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہٗ‘ کہیں اور ’رَبَّنَا لَکَ الحَمد‘ بھی ، یعنی تقسیم نہیں۔
آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس مسئلہ کی مزید وضاحت فرمائیں تاکہ جملہ اشکال رفع ہو سکیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسئلہ ہذا کے تین پہلو ہیں۔ سبھی بحث و تمحیص کے متقاضی ہیں۔ بالاختصار ملاحظہ فرمائیں:
1 کیا امام بعد از رکوع صرف تسمیع ’ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہٗ، پر اکتفاء کرے یا ساتھ تحمید ’ رَبَّنَا لَکَ الحَمدُ‘ بھی ملائے؟
2 اس حالت میں منفرد (اکیلا) کیا کرے۔ دونوں کلمے جمع کرے یا نہ ؟
3 کیا مأموم(مقتدی) صرف تحمید پر اِکتفا کرے یا ساتھ تسمیع بھی ملا سکتا ہے؟
جملہ سوالات کے جوابات بالترتیب پیشِ خدمت ہیں:
1… بظاہر حدیث ’ اِذَا قَالَ الاِمَامُ سَمِعَ اللّٰهُ لِمَن حَمِدَهٗ، فَقُولُوا رَبَّنَا لَكَ الحَمد ‘"صحیح البخاری، بَابُ جَهْرِ المَأْمُومِ بِالتَّأْمِینِ،رقم:۷۸۲" میں امام اور مقتدی کی تقسیم نظر آتی ہے۔ اسی بناء پر امام مالک اور امام ابو حنیفہ; تفریق و تقسیم کے قائل ہیں۔ یعنی امام صرف ’’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہٗ ‘‘ کہے اور مقتدی’’ اَللّٰهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الحَمدُ‘‘۔ لیکن علمائے محققین اور ناقدینِ حدیث نے اس استدلال سے موافقت نہیں کی، بلکہ اس کو ناپسند فرمایا ہے۔ ان کا کہنا ہے: کہ حدیث ہذا میں تقسیم مقصود نہیں ہے، بلکہ یہاں تو صرف مقتدی کے لیے ’’تحمید‘‘ کے وقت کا تعین مقصود ہے۔ جیسا کہ ’’فائِ تعقیب‘‘ لفظ ’’فَقُولُوا‘‘ میں اس پر دال ہے ۔ حاصل یہ ہے، کہ جب امام ’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہٗ‘
کہہ کر فارغ ہو جائے، تو پھر مقتدی’’رَبَّنَا لَکَ الحَمدُ‘‘ کہے۔ اس حدیث میں امام کے اعتبار سے ’’تحمید‘‘ کا اثبات ہے اور نہ نفی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے استدلال ہذا کو محل نظر قرار دیا ہے ۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
’ أُستُدِلَّ بِهٖ عَلٰی أَنَّ الاِمَامَ لَا یَقُولُ: رَبَّنَا لَكَ الحَمدُ. وَ عَلٰی أَنَّ المَامُومَ لَا یَقُولُ: سَمِعَ اللّٰهُ لِمَن حَمِدَهٗ، لِکَونِ ذَلِكَ، لَم یُذکَر فِی هٰذِهِ الرِّوَایَةِ ، کَمَا حَکَاهُ الطَّحَاوِی، وَهُوَ قَولُ مَالِكٍ، وَ أَبِی حَنِیفَةَ. وَ فِیهِ نَظرٌ ، لِأَنَّهٗ لَیسَ فِیهِ مَا یَدُلُّ عَلَی النَّفی، بَل فِیهِ أَنَّ قَولَ المَامُومِ:’رَبَّنَا لَكَ الحَمدُ‘ یَکُونُ عَقبَ قَولِ الاِمَامِ: ’سَمِعَ اللّٰهُ لِمَن حَمِدَهٗ‘ وَالوَاقِعُ فِی التَّصوِیرِ ذٰلِكَ لِأَنَّ الاِمَامَ یَقُولُ التَّسمِیعَ فِی حَالِ انتِقَالِهٖ۔ وَالمَأمُومُ یَقُولُ: اَلتَّحمِیدَ فِی حَالِ اِعتِدَالِهٖ۔ فَقَولُهٗ: یَقَعُ عَقبَ الاِمَامِ، کَمَا فِی الخَبَرِوَهٰذَا المَوضِعُ یَقرُبُ مِن مَسأَلَةِ التَّأمِینِ ، کَمَا تَقَدَّمَ مِن أَنَّ لَا یَلزَمُ مِن قَولِهٖ:’اِذَا قَالَ:﴿وَ لَا الضَّالِّینَ﴾ فَقُولُوا: آمِینَ۔ أَنَّ الاِمَامَ لَا یُؤَمِّنُ بَعدَ قَولِهٖ: ﴿وَلَا الضَّالِّینَ﴾ وَ لَیسَ فِیهِ أَنَّ الاِمَامَ یُؤَمِّنُ ، کَمَا أَنَّهٗ لَیسَ فِی هٰذَا، أَنَّهٗ یَقُولُ:’رَبَّنَا لَكَ الحَمدُ،لٰکِنَّهُمَا مُستَفَادَانِ مِن أَدِلَّةٍ أَخرٰی صَحِیحَةٍ صَرِیحَةٍ۔‘ فتح الباری۲۸۳/۲
یعنی ’’ اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ امام’’رَبَّنَا لَکَ الحَمدُ‘‘ نہ کہے اور مأموم’’ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہُ‘‘ نہ کہے۔ اس لیے کہ یہ اس روایت میں بیان نہیں ہوا، جس طرح کہ طحاوی نے اس کی حکایت کی ہے اور یہی قول امام مالک رحمہ اللہ اور ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ہے، لیکن یہ قول محلِ نظر ہے۔ کیونکہ اس حدیث میں کوئی ایسی شے نہیں جو نفی پر دال ہو۔ بلکہ اس میں تو صرف یہ ہے کہ مأموم کا قول’’رَبَّنَا لَکَ الحَمدُ‘‘ امام کے قول’’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہ‘‘ کے بعد ہونا چاہیے اور واقع میںاس کی تصویر یوں ہے، کہ امام ’’تسمیع‘‘ حالتِ انتقال میں کہتا ہے، جب کہ مأموم ’’تحمید‘‘ حالتِ اعتدال میں کہتا ہے۔ اس لحاظ سے مأموم کا قول امام کے بعد ہو گا، جس طرح کہ حدیث میں ہے۔ یہ مقام ’’مسئلۂ تامین‘‘ کے قریب ہے۔(کما تقدم) جس طرح کہ فرمان نبویﷺ ’اِذَا قَالَ الاِمَامُ﴿وَلَا الضَّالِّینَ﴾ فَقُولُوا: آمِینَ! ‘‘ یعنی جب امام (آمین) کہے، تو تم (آمین) کہو۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ امام﴿وَلَا الضَّالِّینَ﴾کے بعد (آمین) نہ کہے اور اس میں یہ بھی نہیں ہے، کہ امام (آمین) کہے، جس طرح یہاں یہ نہیں ہے کہ امام ’’رَبَّنَا لَکَ الحَمد‘‘ نہ کہے۔ لیکن یہ دونوں مسئلے دیگر صحیح صریح دلائل سے مستفاد (حاصل) ہیں۔ ‘‘(انتہٰی)
اس سلسلہ میں وارد صریح روایات جو امام کی ’’تحمید‘‘ کے جواز پر نص ہیں۔ ’’بخاری اور ’’مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور ’’بخاری میں ابن عمر رضی اللہ عنہما اور ’’مسلم میں عبد اﷲ بن ابی اوفٰی اور علی بن ابی طالب سے منقول ہیں۔ ان میں رسول اﷲﷺ کی نماز کے وصف میں بیان ہوا ہے، کہ آپﷺ جب رکوع سے سر اٹھاتے تو ’’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہٗ رَبَّنَا لَکَ الحَمد‘‘ پڑھتے۔ صاحب ’’المرعاۃ‘‘ فرماتے ہیں:
’’ فَهٰذَا صَرِیحٌ فِی مَشرُوعِیَّةِ التَّحمِیدِ لِلاِمَامِ.‘‘ (۶۳۶/۱)
یعنی پس یہ واضح ہے، کہ امام کے لیے ’’تحمید‘‘ مشروع ہے۔
بعض لوگ اس مقام پر شُبہ پیش کرتے ہیں کہ تقسیم والی حدیث ’’قولی‘‘ ہے، جب کہ جمع والی ’’فعلی‘‘ ہے، جب کہ اصولی قاعدہ ہے، کہ قول کو فعل پر مقدم کیا جاتا ہے۔ اس اشکال کا حل یوں ہے، کہ یہ قاعدہ وہاں جاری ہوتا ہے جہاں قولی حدیث فعلی کے خلاف ہو۔ جب کہ مقامِ بحث میں سِرے سے تعارض کا وجود ہی معدوم و مفقود (موجودنہیں) ہے۔ بعض نے یہاں یہ بھی مفروضہ قائم کیا ہے۔ شاید آپ کا فعلِ جمع نفلی نماز میں منحصر ہو۔ جواباًعرض ہے، کہ یہ بات بھی بعید از قیاس ہے۔ کیونکہ غالب اَحوال میں آپﷺ امام کی حیثیت میں ہوتے تھے۔ پھر لیت و لعل اور مفروضوں پر بناء رکھنا دانشمندی سے بعید ، بلا فائدہ اور غیر معقول شی ٔ ہے۔ بلکہ ’’صحیح بخاری ’’کتاب الاعتصام‘‘ میں صبح کی نماز کی صراحت موجود ہے۔ یاد رہے سرتاج حنفیہ مولانا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ نے ’’السعایة‘‘ میں اسی بات کو ترجیح دی ہے، کہ امام ’’تسمیع‘‘ اور ’’تحمید‘‘ کو جمع کرے۔ فرماتے ہیں:
’ لٰکِنَّ الدَّلِیلَ یُسَاعِدُ الجَمعَ فَهُوَ الأَحَقُّ بِالاِختِیَارِ ‘
بلکہ جمہور اہلِ علم ، امام احمد، شافعی، ابو یوسف، محمد اور متاخرین حنفیہ رحمہم اللہ اس بات کے قائل ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
’ اَلأَحَادِیثُ الصَّحِیحَةُ تَشهَدُ لَهٗ ‘فتح الباری۲۸۴/۲
یعنی صحیح احادیث اسی مسلک کی مؤید ہیں۔
۲۔ جہاں تک منفرد کا تعلق ہے، سو اس بارے میں امام طحاوی اور حافظ ابن عبدالبر; نے اجماع نقل کیا ہے، کہ اکیلا نماز پڑھنے والا ’’تسمیع‘‘ اور ’’تحمید‘‘ کو جمع کرے گا۔
۳۔ مأموم کے بارے میں امام شافعی ، اسحاق، ابو بردہ عطائ، داؤد اور ابن سیرین رحمہم اللہ اس بات کے قائل ہیں، کہ امام اور متفرد کی طرح یہ بھی ’’تسمیع‘‘ اور ’’تحمید‘‘ کو جمع کرے۔ ان لوگوں کا استدلال ’’صحیحین‘‘ کی بعض عمومی احادیث سے ہے۔ مثلاً حدیث ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ میں ہے:’ ثُمَّ یَقُولُ: سَمِعَ اللّٰهُ لِمَن حَمِدَهٗ، حِینَ یَرفَعُ صُلبَهٗ مِنَ الرَّکعَةِ، ثُمَّ یَقُولُ : وَهُوَ قَائِمٌ : رَبَّنَا وَ لَكَ الحَمدُ" صحیح البخاری،بَابُ التَّکْبِیرِ إِذَا قَامَ مِنَ السُّجُودِ ،رقم:۷۸۹" ساتھ اس حدیث کا انضمام (ملانا) بھی کر لیا جاتا ہے کہ’ صَلُّوا کَمَا رَأَیتُمُونِی اُصَلِّی‘صحیح البخاری،بَابُ الأَذَانِ لِلمُسَافِرِ، إِذَا کَانُوا جَمَاعَةً، وَالإِقَامَةِ، وَکَذَلِكَ بِعَرَفَةَ وَجَمعٍ… الخ، رقم:۶۳۱
اور ’’دارقطنی‘‘ کی روایت میں بطورِ نص الفاظ یوں ہیں:
’ عَن اَبِی هُرَیرَةَ قَالَ :کُنَّا إِذَا صَلَّینَا خَلفَ رَسُولِ اللّٰهِ ﷺ فَقَالَ: سَمِعَ اللّٰهُ لِمَن حَمِدَه قَالَ من وَراءهٗ : سَمِعَ اللّٰهُ لِمَن حَمِدَهٗ ‘سنن الدارقطنی
یعنی حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہا: جب ہم رسول اﷲﷺکی اقتداء میں نماز پڑھتے۔ آپﷺ فرماتے: ’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہٗ‘ مقتدی بھی کہتے:’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہٗ‘
لیکن حدیث ہذا میں امام دار قطنی رحمہ اللہ نے اس بات کی تصریح کی ہے، کہ محفوظ الفاظ یوں ہیں:
’’ اِذَا قَالَ الإِمَامُ: سَمِعَ اللّٰهُ لِمَن حَمِدَهٗ. فَلیَقُل مَن وَّرَاءهٗ:’’ رَبَّنَا لَكَ الحَمدُ ‘‘
یعنی ’’امام جب’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہٗ‘کہے، تو مقتدی کو ’رَبَّنَا لَکَ الحَمدُ‘ کہنا چاہیے۔‘‘
اس طرح بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ’’دارقطنی ‘‘کی دوسری روایت ہے
’ یَا بُرَیدَةُ ! إِذَا رَفَعتَ رَأسَكَ مِنَ الرَّکُوعِ، فَقُل: ’ سَمِعَ اللّٰهُ لِمَن حَمِدَهٗ ، اَللّٰهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الحَمدُ، مِلأَ السَّمٰوٰت، وَ مِلأَ الاَرضِ ، وَ مِلأَ مَا شِئتَ مِن شَیئٍ بَعدُ۔‘ سنن الدارقطنی،بَابُ ذِکْرِ نَسْخِ التَّطْبِیقِ وَالْأَمْرِ بِالْأَخْذِ بِالرُّکَبِ ،رقم:۱۲۸۴
بظاہر حدیث ہذا امام اور منفرد اور ماموم سب کو شامل ہے۔ لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔ اس بناء پر صاحب ’’المرعاۃ‘‘ فرماتے ہیں :
’وَ لَیسَ فِی جَمعِ المَأمُومِ بَینَ التَّسمِیعَ، وَالتَّحمِیدَ حَدِیثٌ صَحِیحٌ صَرِیحٌ‘ (۶۳۷/۱)
یعنی ’’مقتدی کے لیے تسمیع اور تحمید کے جمع کرنے کے بارے میں کوئی صریح صحیح حدیث موجود نہیں۔‘‘
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’ وَ زَادَ الشَّافِعِیُّ اَنَّ المَأمُومَ یَجمَعُ بَینَهُمَا اَیضًا، لٰکِنَّ لَم یَصِح فِی ذٰلِكَ شَیئٌ۔ ‘"فتح الباری۲۸۴/۲" یعنی ’’امام شافعی رحمہ اللہ نے اضافہ کیا ہے، کہ مأموم بھی ’’تسمیع‘‘ اور ’’تحمید‘‘ کو جمع کرے، لیکن اس بارے میں کوئی شی ٔ بسندِ صحیح ثابت نہیں ہو سکی۔‘‘
مزید آنکہ یاد رہے۔ سوال میں ذکر کردہ پہلی حدیث: ’إِذَا قَالَ الإِمَامُ :سَمِعَ اللّٰهُ لِمَن حَمِدَهٗ. فَقُولُوا:رَبَّنَا لَكَ الحَمدُ‘ بَابَ مَا یَقُولُ الاِمَامُ وَ مَن خَلفَه،ٗ اِذَا رَفَعَ رَاسَهٗ مِنَ الرَّکُوعِ کے تحت بیان نہیں ہوئی۔ بلکہ اس باب کے تحت سوال میں ذکر کردہ دوسری حدیث: ’ کَانَ النَّبِیُّ ﷺ اِذَا قَالَ :سَمِعَ اللّٰهُ لِمَن حَمِدَهٗ.قَالَ:اَللّٰهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الحَمدُ ‘ بیان ہوئی ہے اور پہلی حدیث بعد والے ’بَابُ فَضلِ أَللّٰهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الحَمدُ‘ کے تحت بیان ہوئی ہے۔ واضح ہو کہ سوال میں منقول روایت سے تقسیم کی دلیل اخذ کرنا درست موقف نہیں۔ سابقہ سطور میں اس امر کی وضاحت ہو چکی ہے۔جہاں تک مقتدی کا تعلق ہے، اس کے لیے جمع کی کوئی واضح صحیح حدیث موجود نہیں جو جواز پر دال ہو۔ لہٰذا مقتدی کو صرف ’’تحمید‘‘ پر اکتفا کرنی چاہیے۔ البتہ امام ’’تسمیع‘‘ اور ’’تحمید‘‘ دونوں کو جمع کرے۔ (کما تقدم)
دراصل مصنف مذکور تبویب میں اس بات کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں، کہ امام اور مأموم کو وہی کچھ کرنا چاہیے جو ان کے حق میں ثابت ہے۔ امام کے لیے چونکہ ’’تسمیع‘‘ اور ’’تحمید‘‘ کا جمع کرنا نصِ حدیث: ’کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَالَ:سَمِعَ اللّٰهُ لِمَن حَمِدَهٗ قَالَ: اَللّٰهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الحَمدُ‘ سے ثابت ہے۔ لہٰذا اسے جمع کرنا چاہیے اورمأموم کے لیے جمع کی کوئی دلیل نہیں، اس لیے اس کو صرف ’’تحمید‘‘ پر اِکتفا کرنی چاہیے۔
جس طرح دوسری حدیث: ’إِذَا قَالَ الاِمَامُ: ’سَمِعَ اللّٰهُ لِمَن حَمِدَهٗ۔ فَقُولُوا: اَللّٰهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الحَمدُ‘"صحیح البخاری،بَابُ فَضْلِ اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الحَمْدُ،رقم:۷۹۶" میں تصریح موجود ہے اور اگر مصنف موصوف کا موقف مسئلہ ہذا میں تفریق کا ہوتا، تو حدیث ’فَقُولُوا:رَبَّنَا ‘ کو ’ بَابُ مَا یَقُولُ الاِمَامُ وَ مَن خَلفَهٗ ‘ کے تحت لاتے جب کہ امر واقعہ یوں نہیں۔
مقتدی کے لیے راجح مسلک کے مطابق ’سَمِعَ اللّٰہُ‘ کہنے کی ممانعت اس لیے ہے، کہ رسول اﷲﷺ سے ثابت نہیں ہے۔سورۂ فاتحہ ادھوری چھوڑ کر امام کے ساتھ (آمین) کہے۔ یہ (آمین) امام کے بالتبع تعمیل حدیث ’فَقُولُوا: آمِینَ‘ کی بناء پر ہو گی۔ بعد میں صف میں ملنے والے۔ بعد ازاں فاتحہ مکمل کرکے اصل محل پر۔ پھر (آمین) کہے گا۔ بایں توجیہ سورۂ فاتحہ کا ادھورا رہنا لازم نہ آیا، جس طرح کہ وہم پڑھ سکتا تھا۔
یاد رہے امام کے ائتمام(اقتدائ) کا حکم ضروری ہے۔ لیکن صرف اس انداز میں ہو گا جس طرح صاحب ِ شریعت سے ثابت ہے ۔ عام حالات میں اقتداء کا اطلاق صرف ظاہری حالت پر ہوتا ہے، باطنی پر نہیں۔ اس بناء پر امام اور مقتدی کی نیت کے اختلاف کی شرع میں گنجائش موجود ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ کے حوالہ سے بعض ائمہ کے جو اقوال نقل کیے ہیں، دیگر ناقلین مذاہب نے بھی بلا شبہ ان اقوال کی نسبت ان کی طرف کی ہے۔ لیکن چونکہ ان کی بنیاد کسی ٹھوس واضح دلیل پر نہیں ہے، اس لیے یہ ناقابلِ التفات ہیں اور ’’دارقطنی‘‘والی روایت کی حقیقت پہلے معلوم ہو چکی۔ یہ قابلِ حجت نہیں ہے۔ البتہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ’’الحاوی للفتاویٰ‘‘ میں نو مختلف طریقوں سے کوشش کی ہے، کہ مأموم کے لیے بھی ’’تسمیع‘‘ کا اثبات کیا جائے۔ لیکن واقعہ یہ ہے، کہ جملہ دلائل میں سے کوئی ایک بھی دلیل ایسی نہیں، جو موضوع ہذا پر نص کی حیثیت رکھتی ہو ۔ بہر صورت ان پر نقد و تبصرہ کی بڑی گنجائش موجود ہے۔( ملاحظہ ہو!(۵۲،۵۶/۱) بحث: ذکر التشنیع فی مسألۃ التسمیع)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب