السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جو لوگ امام کے پیچھے مقتدی کے لیے ’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہُ ‘ تجویز کرتے ہیں، ان کے نزدیک امام کے ساتھ ساتھ ’رَبَّنَا لَکَ الحَمدُ‘ کہنے کی غرض سے امام کے ساتھ ساتھ ’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہُ ‘ کہا جائے گا یا عام اصول کے مطابق امام کے بعد اور ’ رَبَّنَا لَکَ الحَمدُ ‘ بھی امام کے بعد ؟ میرے علم میں آیا ہے کہ آپ مقتدی کے لیے’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن …‘کہنے کے قائل نہیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ مقتدی ’رَبَّنَا لَکَ الحَمدُ‘ امام کے بعد کہے گا، ساتھ نہیں اسی طرح کا معاملہ ’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہُ ‘ کا ہوگا، ان لوگوں کے نزدیک جو مقتدی کے لیے ’سَمِعَ اللّٰہُ لِمَن حَمِدَہُ ‘کے جواز کے قائل ہیں۔ نیزصاحب ’’ اَلمِرعَاۃ ‘‘ فرماتے ہیں:
’وَلَیسَ فِی جَمعِ المَأمُومِ بَینَ التَّسمِیعِ،وَالتَّحمِیدِ حَدِیثٌ صَحِیحٌ صَرِیحٌ۔ قَالَ الحَافِظُ: زَادَ الشَّافِعِیُّ أَن المَأمُومَ یَجمَعُهُمَا اَیضًا۔ لٰکِن لَم یَصِحُ فِی ذٰلِكَ شَیئٌ۔‘(۱؍ ۶۳۷)
’’ مقتدی کے ’سَمِعَ اللّٰہُ ‘ اور ’رَبَّنَا لَکَ الحَمدُ‘ (دونوں) کو جمع کرنے کے بارے میں کوئی صحیح صریح حدیث موجود نہیں ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا ہے، کہ مقتدی بھی دونوں کو جمع کرے، لیکن اس بارے میں کوئی صحیح بات ثابت نہیں۔‘‘
جو میرا نظریہ ہے اس کی بنیاد بھی یہی بات ہے، کہ اس سلسلے میں کوئی صحیح صریح حدیث ثابت نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب