السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کہا جاتا ہے کہ مُدرِکِ رکوع اس لیے مُدرِکِ رکعت نہیں کہ اس سے دو فرض(قیام اور قرأت) چھوٹ گئے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت میں آپ کا کیا فتویٰ ہو گا۔ جب نمازی قیام میں شامل ہو کر سورۂ فاتحہ شروع کرتا ہے ایک یا دو یا تین آیات پڑھ پاتا ہے اور امام رکوع میں چلا جاتا ہے۔ بینوا توجروا۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس صورت میں مأموم ’’سورۂ فاتحہ‘‘ پوری کرکے امام کے ساتھ مل جائے۔ چنانچہ حدیث میں ہے:
’ لَا تُبَادِرُونِی بِرَکُوعِ، وَ لَا بِسَجُودٍ، فَاِنَّهٗ مَهمَا اَسبقُکُم بِهٖ، اِذَا رَکَعتُ، تُدرِکُونِی بِهٖ اِذَا رفعتُ، إِنِّی قَد بَدَنتُ‘سنن أبی داؤد، بَابُ مَا یُؤْمَرُ بِهِ الْمَأْمُومُ مِنَ اتِّبَاعِ الْإِمَامِ ،رقم:۶۱۹،سنن ابن ماجه،بَابُ النَّهْیِ أَنْ یُسْبَقَ الْإِمَامُ بِالرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ، رقم:۹۶۳
’’ مجھ سے پہلے رکوع کرو نہ سجدہ، میں اسے تم سے پہلے کر گزرتا ہوں، تو تم مسابقت کا ادراک میرے اٹھنے کے بعد کر لیا کرو۔ بے شک میں بوجھل( کبر سنی یا جسم کے بھاری ہونے کے اعتبار سے) ہوچکا ہوں۔‘‘
شارح حدیث امام خطابی رحمہ اللہ نے حدیث ھذا کا مفہوم یوں بیان فرمایا ہے:
’ یُرِیدُ أَنَّهٗ لَا یَضُرُّکُم رَفعِی رَاسِی مِنَ الرُّکُوعِ، وَ قَد بَقِیَ عَلَیکُم شَیئٌ مِنهُ، إِذَا أَدرَکتُمُونِی قَائِمًا قَبلَ أَن أَسجُدَ ۔ وَ کَانَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ إِذَا رَفَعَ رَأسَهٗ مِنَ الرَّکُوعِ، یَدعُو بِکَلَامٍ فِیهِ طُولٌ ۔‘
مزید آنکہ ’إنجاح الحاجۃ‘ میں وضاحت یوں ہے:
’ قَولهٗ مَهمَا اَسبِقُکُم بِه… الخ أَیِ اللَّحظَةُ الَّتِی أَسبِقُکُم بِهَا فِی ابتِدَاءِ الرُّکُوعِ، وَ تَفُوتُ عَنکُم، تُدرِکُونَهَا إِذَا رَفَعتُ رَاسِی مِنَ الرُّکُوعِ، لِأَنَّ اللَّحظَةَ الَّتِی یَسبِقُ بِهَا الاِمَامُ عِندَ الرَّفعِ، تَکُونُ بَدَلًا عَنِ اللَّحظَةِ الأَولٰی لِلمَأمُومِینَ۔ فَالفَرضُ مِنهُ أَنَّ التَّاخِیرَ الثَّانِی یَقُومُ مَقَامَ التَّاخِیرِ الأَوَّلِ، فَیَکُونُ مِقدَارُ رُجُوعِ الاِمَامِ، وَ المَامُومِ سَوَاءً ، وَ کَذَا السَّجَدَة۔‘ عون المعبود،۲۳۹/۱
ائمۂ حدیث کی تشریحات کا حاصل یہ ہے ،کہ مقتدی اگر اِمام کو قیام کے بعد رکوع میں اور رکوع کے بعد قومہ میں سجدہ میں جانے سے قبل پالے ، تودرست ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنے وقفے میں مأموم ’’سورۂ فاتحہ‘‘ کی تکمیل ، پھر رکوع سے فراغت کے بعد اِمام کوسجدہ سے قبل بخوبی پا سکتا ہے۔
بالخصوص جب کہ ائمۂ سنت کی عاداتِ کریمہ میں سے ہے ،کہ وہ نبی کریمﷺ کی اِقتداء میں بعد از رکوع لمبی دعا میں مصروف رہتے اور تأخیر میں جو حکم رکوع کا ہے وہی سجدہ کا بھی ہے۔ تأخیر ثانی پہلی تأخیر کے قائم مقام ہوگی۔ نیز امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ فَمَن دَخَلَ خَلفَ اِمَامٍ، فَبَدَأَ بِقِرَائَةِ أُمِ القُراٰنِ ۔ فَرَکَعَ الاِمَامُ قَبلَ أَن یُتِمَّ هٰذَا الدَّاخِلُ أُمَّ القُراٰنِ ، فَلَا یَرکَعُ حَتّٰی یُتِمَّهَا۔ … بُرهَانُ ذَالِكَ مَا ذَکَرنَاهُ مِن وُجُوبِ قِرَائَةِ أمِّ القُراٰنِ فِی کُلِّ رَکعَةٍ ۔ وَ قَد قَالَ رَسُولُ اللّٰهِﷺ مَهمَا اَسبِقُکُم بِهِ ، إِذَا رَکَعتُ تُدرِکُونِی بِهٖ إِذَا رَفَعتُ ‘المحلّی:،جز:۳،ص:۱۷۹
یعنی جس نے امام کی اقتداء میں شامل ہو کر ’’سورہ فاتحہ‘‘ شروع کی اور تکمیل سے پہلے امام رکوع میں چلا گیا ، تو یہ شخص رکوع نہ کرے حتی کہ ’’فاتحہ‘‘ کو پورا کرے۔ دلیل اس کی وہی ہے، جو قبل ازیں ہم بیان کر چکے ہیں، کہ ہر رکعت میں فاتحہ واجب ہے۔
رسول اﷲﷺ کا ارشادِ گرامی ہے۔ میں آپ سے پہلے رکوع یا سجدہ کر گزرتا ہوں، تو تم لوگ مسابقت (پہلے کرنے کا) ادراک یعنی(کمی کا پورا کرنا) میرے اُٹھنے کے بعد کر لیا کرو۔‘‘
ان واضح اور مُصَرَّح دلائل و شواہد سے معلوم ہوا، کہ مقتدی ’’سورہ فاتحہ‘‘ پوری کرکے رکوع کرے اور اگر بالفرض کوئی مقتدی فاتحہ نامکمل چھوڑ کر رکوع میں چلاجائے تو اس رکعت کا اعادہ ضروری ہے۔ کیونکہ فاتحہ مکمل سورت کا نام ہے۔ بعض آیات نہیں صحیح حدیث میں وارد ہے:
’ لَا صَلَاةَ لِمَن لَّم یَقرَأ بِفَاتِحَةِ الکِتَابِ‘ (متفق علیہ) (ھذا ما عندی و اللہ أعلم بالصواب وعلمہ أتم) صحیح البخاری، باب وُجُوبِ القِرَائَةِ لِلاِمَامِ وَالمَامُومِ فِی الصَّلٰوۃِ کُلِّھَا …الخ،رقم:۷۵۶، صحیح مسلم:۳۹۴
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب