السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اہلِ حدیث میں اس مسئلہ پر اختلاف ہے ایک جماعت رکعت ہو جانے کی قائل ہے جب کہ دوسری کہتی ہے کہ رکعت نہیں ہوتی حالانکہ دونوں ’’سورۃ فاتحہ‘‘ پڑھنے کو فرض سمجھتے ہیں۔
جو لوگ رکوع کی رکعت ہونے کے قائل ہیں وہ بخاری کی حدیث پیش کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ ایک دن دوڑ کر رکوع کرتے ہوئے صف میںجا ملے۔ بعد سلام آپﷺ نے فرمایا ’’ اﷲ تعالیٰ تیری حرص کو زیادہ کرے اور مت لوٹا، تو(یعنی نماز کو)۔‘‘
اس حدیث سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مدرک رکوع کو مدرک رکعت نہ جانتے تو پھر دوڑنے کی کیا ضرورت تھی۔
دوسری حدیث: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا جس وقت سجدہ کی حالت میں آکر ملو تو اس رکعت کو شمار نہ کرو اور جو کوئی رکوع میں آکر ملے اس نے نماز پائی۔
تیسری حدیث: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ (جس آدمی نے جمعہ کے دن دوسری رکعت کا رکوع پا لیا وہ ایک رکعت اور پڑھ لے۔ سنن ابن ماجہ،بَابُ مَا جَاء َ فِیمَنْ أَدْرَکَ مِنْ الْجُمُعَۃِ رَکْعةَ،رقم:۱۱۲۱
اس طرح اور حدیثیں لکھنے کے بعد لکھتے ہیں کہ جس طرح ظہر کی چار رکعت اس وقت تک فرض ہیں جب تک آدمی حضر میں ہو اور اگر سفر میں ہو تو دو رکعتوں کی فرضیت اٹھ جاتی ہے، اسی طرح فاتحہ اور قیام اس وقت تک فرض ہے جب تک امام رکوع میں نہ گیا ہو۔ جس وقت امام رکوع میں چلا گیا اس وقت یہ دونوں چیزیں فرض نہ رہیں۔ جو مدرکِ رکوع کو مدرکِ رکعت نہیں مانتے، ان کے پاس صرف اجتہاد ہے اور یہ کہ مندرجہ ذیل صحابہ، تابعی، تبع تابعی امام و صالحین اس کے قائل ہیں۔ مثلاً حضرت ابوبکر صدیق، حضرت ابوبکرہ، حضرت زید بن وہب، حضرت ابن مسعود،حضرت ابن عمر، حضرت ابوہریرہ، حضرت زید بن ثابت( رضی اللہ عنہم )، باقی نام و دلائل (مکتبہ ایوبیہ حدیث محل کراچی) کے شائع شدہ پمفلٹ ’’رکوع کی رکعت‘‘ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
براہ مہربانی اس کی وضاحت فرمائیں کیونکہ ہم تو ابھی تک یہی سنتے آئے ہیں کہ جس رکعت میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ رکعت نہیں ہوتی۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رکوع کی رکعت کا مسئلہ مختلف فیہ مسائل میں سے ایک ہے۔ جمہور اہلِ علم اس بات کے قائل ہیں کہ ’’مدرکِ رکوع‘‘(رکوع پانے والا) ’’مدرک رکعت‘‘(رکعت پانے والا) ہے لیکن دوسری طرف محققین کی ایک جماعت کا موقف یہ ہے، کہ ’’مدرک رکوع‘‘ ’’مدرکِ رکعت‘‘ نہیں۔ جمہور کے دلائل میں سے وہ احادیث ہیں جن کی سائل نے نشاندہی کی ہے ۔یہاں ہم بالاختصار جمہور کے دلائل کا جائزہ پیش کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیں! ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ’’اور مت لوٹا‘‘(یعنی نماز کو) یہ ترجمہ اس بناء پر ہے، کہ حدیث ہذا میں وارد لفظ’’و لا تُعِدہُ‘‘ کو تاء کے ضمہ اور عین کے کسرہ سے پڑھا جائے۔ لیکن اس ضبط سے محدثین نے موافقت نہیں کی۔ چنانچہ صاحب ’’ المرعاۃ‘‘ فرماتے ہیں:
’ وَقَد أبعَدَ مَن قَالَ: وَ لَا تُعِد ،بِضَمِ التَّاءِ ،وَ کَسرِ العَینِ ، مِنَ الاِعَادَةِ ، أَی لَا تُعِدِ الصَّلٰوةَ الَّتِی صَلَّیتَهَا ‘ (۹۸/۲)
یعنی ’’اس آدمی کا نظریہ بعید ہے جس نے لفظ ’’ولا تعد‘‘ کو تاء کے ضمہ اور عین کے کسرہ اعادہ سے پڑھا ہے۔ یعنی اس نماز کو نہ لوٹا، جو میں پڑھ چکا ہوں۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
’ قوله : لَا تعد ضَبَطنَاهُ فِی جَمِیعِ الرِّوَایَاتِ ، بِفَتحِ أَوَّلِهٖ، وَ ضَمِّ العَینِ ، مِنَ العَودِ۔ اِی لَا تَعُد اِلٰی مَا صَنَعتَ مِنَ السَّعیِ الشَّدِیدِ ۔ ثُمَّ مِنَ الرَّکُوعِ دُونَ الصَّفِّ۔ ثُمَّ مِنَ المَشیِ اِلَی الصَّفِّ۔ وَ قَد وَرَدَ مَا یَقتَضِی ذَلِكَ صَرِیحًا فِی طُرُقِ حَدِیثِهٖ۔‘
یعنی ’’تمام روایات جن کو ہم نے ضبط کیا ہے وہ ’’لا تعد‘‘ کی تاء کے فتحہ اور عین کے ضمہ ’’عَوَّد‘‘سے ہے۔ یعنی یہ جو تو نے سَرپَٹ دوڑ لگائی۔ پھر صف بندی سے پہلے رکوع کیا۔ پھر صف کی طرف دوڑا۔ آئندہ ایسا نہ کرنا۔‘‘
اس حدیث کے طُرق میں ایسے الفاظ موجود ہیں، جو بالصراحت اس شئی کے متقاضی ہیں۔ اسی بناء پر فرمایا: ’’زَادَكَ اللّٰهُ حِرصًا وَ لَا تَعُدُ‘‘ یعنی اﷲ تعالیٰ تیرا شوق زیادہ کرے۔ آئندہ ایسا نہ کرنا۔ جس شے سے روک دیا جائے، اس سے دلیل لینا غیر درست ہے۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ ’’جزء القراء ۃ ‘‘ میں فرماتے ہیں:
حدیث ابی بکرہ رضی اللہ عنہ سے معلوم ہوا، کہ کسی کو جائز نہیں ہے، کہ حضور کے منع کرنے کے بعد صف کے پیچھے سے رکوع کرتا ہوا امام کے ساتھ شریک ہوجائے، اور اس کا یہ مطلب نہیں ہے۔ کہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے رکوع کی رکعت کو شمار کیا ہو۔ نیز انھوں نے اس روایت میں یہ ٹکڑا بھی نقل کیا ہے۔ ’وَاقضِ مَا سَبَقَکَ‘ یعنی ابوبکرہ اپنی رکوع والی رکعت کو پھر سے پڑھ لو۔ یہ روایت طبرانی میں بھی اسی طرح وارد ہے۔ پھر ’’صحیحین‘‘ میں واضح طور پر فرمانِ نبوی ہے:’ فَمَا أَدرَکتُم فَصَلُّوا وَمَا فَاتَکُم فَأَتِمُّوا۔‘ صحیح البخاری،بَابُ قَولِ الرَّجُلِ: فَاتَتنَا الصَّلاَةُ،رقم:۶۳۵ مع فتح الباری۱۱۷/۱
لوگو! نماز میں بھاگ کر نہ ملو ۔ جو امام کے ساتھ پاؤ، اسے پڑھ لو، اور جو حصہ فوت ہو جائے، اس کو امام کے سلام پھیرنے کے بعد پڑھ لیا کرو۔‘‘
یعنی ابن حجر رحمہ اللہ زیرِ حدیث ہذا لکھتے ہیں:
’ وَاستُدِلَّ بِهٖ عَلٰی أَنَّ مَن أَدرَكَ الاِمَامَ رَاکِعًا، لَم تُحسَب لَهٗ تِلكَ الرَّکعَةُ لِلاَمرِ بِاِتمَامِ مَا فَاتَهٗ ، لِأَنَّهُ فَاتَهُ الوَقُوفُ ، وَالقِرَائَةُ فِیهِ۔ وَهُوَ قَولُ اَبِی هُرَیرَةَ ،وَ جَمَاعَة، بَل حَکَاهُ البُخَارِیُّ فِی القِرَائَةِ خَلفَ الاِمَامِ عَن کُلِّ مَن ذَهَبٍ اِلٰی وُجُوبِ القِرَائَةِ خَلفَ الاِمَامِ ۔‘
یعنی اس حدیث میں دلیل ہے ان لوگوں کی جو کہتے ہیں (کہ) رکوع میںشامل ہونے سے رکعت شمار نہ ہو گی۔ اس لیے کہ آپ نے فرمایا: فوت شدہ حصہ کو پڑھ لو! چونکہ اس صورت میں قیام اورقرأت فوت ہو چکے ہیں۔ اس لیے اس رکعت کا اعادہ ضروری ہے۔ یہی قول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ایک جماعت کا ہے ۔ یہاں تک کہ امام بخاری نے فرمایا: جو صحابہ ’’قراء ۃ خلف الامام‘‘ کو واجب سمجھتے ہیں، وہ سب اس طرح کہتے ہیں۔
امام ابن حزم رحمہ اللہ نے ’’المحلّٰی‘‘ میں اس حدیث پر اس طرح نوٹ دیا ہے۔ جمہورکے لیے اس حدیث میں ہر گز کوئی دلیل نہیں ہے۔ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے قیام اور قرأت کے لازم ہونے پر مذکور حدیث سے استدلال کیا ہے اور جزماً فرمایا ہے کہ ’’رکعت‘‘ اور ’’رکنِ رکعت‘‘ کے فوت میں کوئی فرق نہیں۔ چونکہ جملہ ارکان کی تکمیل کے بغیر نماز نہیں ہو سکتی اور حدیث کا تقاضا یہ ہے کہ جو چیز امام پہلے ادا کر چکا ہے، اسے پورا کیا جائے۔ اس حکم سے کسی رکن کو خارج کرنا مناسب نہیں۔ اس کے بعد ابن حزم فرماتے ہیں: کہ بعض حضرات نے اس پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے :’’وھو کاذب فی ذلک‘‘ یعنی اجماع کا مدعی جھوٹا ہے۔
صاحب ’’المرعاۃ‘‘ فرماتے ہیں:
’ وَ ذَهَبَ أبوهریرة، و اهل الظاهر، و ابن خزیمة، و ابوبکر الضبعی، والبخاری الی أنه لا تُجزِئُهُ تِلكَ الرَّکعَةُ ، اِذَا فَاتَهُ القِیَامُ ، وَ قِرَائَةُ فَاتِحَةِ الکِتَابِ، وَ اِن اَدرَکَ الرَّکُوعَ مَعَ الاِمَامِ۔ وَقَد حُکِیَ هَذَا المَذهَبُ فِی ’الفَتحِ‘ عَن جَمَاعَةٍ مِنَ الشَّافِعِیَّةِ، وَ قَوَّاهُ الشَّیخُ تَقِیُّ الدِّینَ السبکی، وَغَیرُهٗ من محدثی الشافعیة۔ و رجحه المقبلی۔ قال: و قد بحثت هذه المسئلة ، وأحطتها فی جَمِیع بحثی فقهًا و حدیثاً، فلم أحصُلُ مِنها عَلی غَیر مَا ذُکِرَت، یعنی مِن عَدَمِ الاعتِدَادِ بِإِدرَاكِ الرُّکوع، فقط۔ وَهُوَ القَولُ الرَّاجِحُ عِندِی۔ فَلَا یَکُونُ مُدرِكُ الرُّکُوعِ مُدرِكَ الرَّکعَةِ لِمَا فَاتَه مِنَ القِیَامِ، وَ قِرَائَةِ فَاتِحَةِ الکِتَابِ، وَهُوَ مِن فُرُوضِ الصَّلٰوةِ، وَ أَرکَانِهَا، ولحدیث ’ اَدرَکتُم فَصَلُّوا ، وَ مَا فَاتَکُم ، فَأَتِمُّوا ‘ (ص:۹۸)
یعنی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ، اہل ظاہر اور ابن خزیمہ ، ابوبکر ضبعی اور بخاری( رحمہم اللہ ) اس طرف گئے ہیں، کہ یہ رکعت شمار نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس سے قیام اور فاتحۃ الکتاب فوت ہو چکی ہے۔ اگرچہ امام کے ساتھ رکوع پالے۔ یہ مسلک حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے’’فتح الباری‘‘ میں شوافع کی ایک جماعت سے نقل کیا ہے۔ محدثین شافعیہ سے تقی الدین سبکی وغیرہ نے اس مذہب کو قوی کہا ہے اور مقبلی نے اس کو راجح قرار دیا ہے اور کہا ہے: کہ میں نے اس مسئلہ کو خوب کھنگالا ہے۔ فقہ اور حدیث دونوں کی رُو سے اس پرنظر کی ہے۔ مجھے اس سے زیادہ کچھ حاصل نہیں ہوا، جو میں نے ذکر کردیا ہے (یعنی رکوع میں ملنے سے رکعت شمار نہیں ہوتی) میرے نزدیک بھی راجح قول یہی ہے، کہ ’’مدرک رکوع‘‘،’’ مدرک رکعت‘‘ نہیں، کیونکہ اس سے قیام اور فاتحہ فوت ہو چکے ہیں۔ دونوں نمازکے فروض اور ارکان سے ہیں اور اس حدیث کی بناء پر کہ جو امام کے ساتھ پاؤ۔ پڑھ لو، اور جو فوت ہو جائے، اس کو بعد میں مکمل کرو۔‘‘
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی دوسری روایت کا جواب یہ ہے، کہ ’’ مَن أَدرَكَ الرَّکعَةَ فَقَد أَدرَكَ الصَّلٰوةَ‘‘ کا اصلاً ترجمہ اس طرح ہے۔ جس نے رکعت پائی اس نے نماز پائی، رکعت نام ہے، قیام ،قرأت اور رکوع اور سجدہ کے مجموعہ کا۔ یہاں رکعت کا معنی رکوع لینا غیر درست ہے۔ صاحب ’’العون‘‘ فرماتے ہیں: کہ اس مقام پر حقیقی معنی رکعت کے ہیں۔ اس حدیث سے ثابت نہیں ہوتا، کہ ’’مدرک رکوع‘‘ کی رکعت ہو جاتی ہے۔(۳۳۲/۱) اس مفہوم کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے، کہ خود راویٔ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رکوع کی رکعت کے قائل نہیں تھے۔
دوسری بات یہ ہے، کہ یہ حدیث سنداً ضعیف ہے۔ اس میں ایک راوی یحییٰ بن ابی سلیمان المدینی ہے، وہ ضعیف ہے اور منکر الحدیث ہے۔ اس نے یہ روایت اپنے اُستاذ زید اور ابن المقبری سے نہیں سنی۔ اس لیے اس حدیث سے حجت نہیںپکڑی جا سکتی۔(جزء القراء ۃ) نیز فتاویٰ نذیریہ میں ہے کہ رکعت سے رکوع مراد لینا جائز نہیں۔ کیونکہ یہ ’’معنی مجازی‘‘ ہے اور لفظ کا مجازی معنی مراد لینا بلا قرینہ کے جائز نہیں اور اس حدیث میں کوئی قرینہ نہیں ہے۔ ساتھ اس کے یہ حدیث ضعیف بھی ہے۔ ’’صاحب العون‘‘ فرماتے ہیں۔ سید نذیر حسین رکوع کی رکعت نہ ہونے کے قائل ہیں۔(۲۳۴/۱)
تیسری دلیل کو ’’دارقطنی‘‘ نے بایں الفاظ نقل کیا ہے:
’ مَن اَدرَكَ الرُّکُوعَ مِنَ الرَّکعَةِ الاٰخرَةِ یَومَ الجُمُعَةِ، فَلیُضِف اِلَیهَا الأخرٰی‘سنن الدارقطنی،بَابٌ: فِیمَنْ یُدْرِكُ مِنَ الْجُمُعَةِ رَکْعَةً أَوْ لَمْ یُدْرِکْهَا ،رقم:۱۶۰۳
یعنی ’’جس شخص نے جمعہ کی نماز کی پچھلی رکعت کا رکوع پا لیا اس کو چاہیے ،کہ دوسری رکعت ملالے۔‘‘
لیکن اس کی سند میں یاسین بن معاذ راوی ’’متروک‘‘ اور ناقابلِ حجت ہے۔
جمہور کی چوتھی دلیل بحوالہ ابن خزیمہ یوں ہے:
’ مَن أَدرَكَ الرَّکعَةَ مِنَ الصَّلٰوةِ، فَقَد اَدرَکَهَا قَبلَ اَن یُّقِیمَ الاِمَامُ صُلبَه۔‘ صحیح ابن خزیمه،بَابُ ذِکْرِ الْوَقْتِ الَّذِی یکون فِیهِ الْمَأْمُومُ …الخ ،رقم:۱۵۹۵
یعنی ’’جس نے رکوع پالیا امام کے سَر اٹھانے سے پہلے، اس نے اس رکعت کو پالیا۔‘‘
اس کا جواب یہ ہے، کہ اس کی سند میں یحییٰ بن حمید راوی مجہول الحال ہے۔ یہ حدیث ناقابلِ اعتماد ہے۔ جس طرح کہ’’جزء القراء ۃ للبخاری میں ہے۔’’دارقطنی ‘‘نے بھی اس کو ضعیف قرار دیا ہے اور عقیلی نے اس کو ’’الضعفاء‘‘ میں ذکر کیا ہے اور یہ ’’قبل ان یقیم الامام صَلبَہ‘‘ کے الفاظ بیان کرنے میں متفرد ہے۔ عقیلی نے کہا ہے، کہ اس حدیث کو مالک اور دیگر حفاظ اصحاب زہری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔ لیکن انھوں نے آخری زیادتی کو بیان نہیں کیا۔ ممکن ہے یہ زُہری کا کلام ہو۔ اسی طرح اس حدیث میں قرۃ بن عبد الرحمن بھی متکلم فیہ ہے اور ’’التعلیق المغنی‘‘ میں ہے:
’ فیه یحییٰ بن حمید، قال البخاری: لا یتابع فی حدیثه۔‘
بلاشبہ بعض صحابہ رکوع کی رکعت کے قائل ہیں ۔ عام طور پر وہ لوگ ہیں جو سورۃ فاتحہ کی فرضیت کے قائل نہیں۔ اس فہرست میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو شامل کرنا سخت غلطی ہے۔ ان سے بسندِ صحیح ثابت ہے، کہ وہ رکوع کی رکعت کے قائل نہیں۔ (عون المعبود(۳۳۳/۱) میں ہے:
’ وَ قَالَ عَلِیُّ بنُ عَبدِ اللّٰهِ! اِنَّمَا اَجَازَ اِدرَاكَ الرُّکُوعِ مِن اَصحَابِ النَّبِیِّﷺ اَلَّذِینَ لَم یَرَوا القِرَائَةَ خَلفَ الاِمَامِ۔ مِنهُم ابنُ مَسعُودٍ، وَ زِیدُ بنُ ثَابِتٍ، وَ ابنُ عُمَرَ۔‘
یاد رہے عبادات میں اصل حظر(ممانعت) ہے، یعنی قیاس ناجائز ہے۔ بفرض تسلیم رکوع کی رکعت کو حضری سفری نماز پر قیاس کرنا۔ قیاس مع الفارق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے، کہ سفر میں ’’قصر‘‘ کرنا راجح مسلک کے مطابق واجب نہیں۔ نماز پوری پڑھنا بھی جائز ہے۔ جب کہ قیام اور فاتحہ ہر صورت واجب ہیں۔ ان کے بغیر نماز کا وجود ہی نہیں۔
لہٰذا جملہ دلائل و براہین کی روشنی میں ہمارے نزدیک راجح بات یہی ہے، کہ ’’مدرک رکوع‘‘’’ مدرک رکعت‘‘ نہیں۔ مذکورہ دلائل کی موجودگی میں بعض حضرات کا دعویٰ مزعومہ کہ ہمارے پاس محض اجتہاد ہے۔ باعث ِ تعجب اور قابلِ صد افسوس ہے۔ اﷲ تعالیٰ جملہ مسلمانوں کو کتاب و سنت میں فہم و بصیرت عطا فرمائے!(آمین)
مزید بسط و تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو!’’عون المعبود‘‘ :۱/۳۳۲تا۳۳۷، اور ’’مرعاۃ المفاتیح‘‘ (۲/۹۷تا۹۸)، اور ’’دلیل الطالب علی ارجح المطالب‘‘ للعلامہ القنوجی رحمہ اللہ ۔اور مختصر ’’سنن ابی داؤد‘‘ للمنذری کے حاشیہ پر علامہ احمد شاکر اور حامد فقہی بھی عدمِ رکعت کے قائل ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب