السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سورۃ فاتحہ خلف امام حضرت عبادہ بن صامت کی روایت کی رُو سے فرض ہے اور علماء حضرات یہی کہتے ہیں کہ جو رکوع میں ملے اس کی رکعت نہیں ہوتی۔ وہ رکعت سلام کے بعد پڑھے۔ لیکن حکم ہے کہ جو شخص جمعہ کے دن دوسری رکعت کے رکوع میں مل جائے اس کی رکعت ہو گئی اور وہ صرف ایک رکعت اور ادا کرے گا۔ اگر رکوع کے بعد ملا تو پھر چار رکعتیں ظہر کی پڑھے گا۔ اگر جمعہ میں مُدرِکِ رُکُوع مُدرِکِ رکعت ہے تو باقی نمازوں میں کیوں نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اصل بات یہ ہے، کہ جمعہ کے دن بھی ’’مُدرِکِ رُکُوع،(رکوع میں شامل ہونے والا) مُدرِکِ رکعت نہیں، یہاں جو اختلافی نکتہ ہے، وہ یہ ہے، کہ جمعہ کے دن نمازی کم از کم کتنی نماز امام کے ساتھ پائے، تو وہ ’’مُدرِکِ جمعہ‘‘(جمعہ میں شامل ہونے والا) سمجھا جائے گا۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اکثر اہلِ علم سے نقل کیا ہے، کہ کم از کم ایک رکعت مکمل پائے، تو وہ ’’مُدرِکِ جمعہ‘‘ سمجھا جائے گا۔ ان حضرات کا چند ایک احادیث سے استدلال ہے۔ لیکن صاحب ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ رحمہ اللہ نے ان کو ضعیف قرار دیا ہے۔ دوسری طرف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے موافقین کا مسلک ہے، کہ مقتدی امام کو جونسے جُزء میں پائے۔ اگرچہ وہ تشہد میں ہی کیوں نہ ہو، وہ ’’مُدرِکِ جمعہ‘‘ ہی سمجھا جائے گا۔
علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ نے بھی عمومِ حدیث ’ فَمَا أَدرَکتُم فَصَلُّوا وَمَا فَاتَکُم فَأَتِمُّوا ‘"صحیح البخاری،بَابُ قَولِ الرَّجُلِ: فَاتَتنَا الصَّلاَةُ،رقم:۶۳۵" کے پیشِ نظر اس مذہب کو راجح قرار دیا ہے۔
پھر پہلے مسلک پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مجھے کسی بھی صحیح صریح حدیث کا علم نہیں ہو سکا، جو ان کے نظریہ کی مؤید ہو۔ (تحفة الأحوذی۳/۶۳، طبع مصری) لیکن علامہ البانی نے ابنِ عمر رضی اللہ عنہما کی روایت، (جس میں جمعہ کی کم از کم ایک رکعت پانے کا تذکرہ ہے)کو مرفوع اور موقوف صحیح قرار دیا ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے اس کو ضعیف گردانتے ہیں۔ بحث کے اختتام پر فرماتے ہیں :
’ وَ جُملَةُ القَولِ أَنَّ الحَدِیثَ بِذِکرِ الجُمُعَةِ صَحِیحٌ مِن حَدِیثِ ابنِ عُمَرَ، مَرفُوعًا، وموقوفًا، لامن حدیث أبی هریرة (والله ولی التوفیق)‘ إرواء الغلیل ۹۰/۳
ظاہر ہے حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اثبات کی صورت میں ترجیح پہلے مسلک کو ہوگی۔ (واﷲ اعلم)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب