السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا پیغمبرِ اسلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رفع یدین کرتے تھے اور آخر تک کرتے رہے؟ کیا نماز عید میں رفع یدین کرتے تھے اور کیا نمازِ جنازہ میں بھی رفع یدین کرنا چاہیے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردِ خاص امام محمد رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب موطأ میں رفع الیدین کی صحیح حدیث لائے ہیں۔عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع کرتے تو رفع الیدین کرتے اور جب رکوع کے لئے تکبیر کہتے تو رفع الیدین کرتے اور رکوع سے سراُٹھاتے تو رفع الیدین کرکے سمع اللہ لمن حمدہ اور ربنا لک الحمد کہتے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک رفع الیدین کی حدیث صحیح ثابت ہے، منسوخ نہیں۔
امام محمد بن یحییٰ ذہلی کا قول ہے، کہ رفع الیدین نہ کرنے والے آدمی کی نماز ناقص ہو گی۔( صحیح ابن خزیمۃ: ۱/ ۲۹۸/ ۵۸۹) پھر تکبیر تحریمہ کے وقت رفع الیدین کی ہمیشگی کے حنفیہ بھی قائل ہیں۔ جس دلیل کی بناء پر اس پر ہمیشگی ثابت ہے، اُسی روایت میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد بھی رفع الیدین کا ذکر ہے، اگر پہلی رفع الیدین ہمیشہ ہے، تو باقی جگہ بھی ہمیشگی ثابت ہو گی۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی سابقہ روایت اس امر کی واضح دلیل ہے۔
مولانا اشفاق الرحمن حنفی رسالہ ’’نور العین‘‘ میں فرماتے ہیں: مواظبت عند الإفتتاح (ابتدائی رفع یدین پر ہمیشگی)کا ثبوت نفسِ نقل رفع سے نہیں بلکہ نقلِ رفع، وعدمِ نقل ترک رفع سے ہے۔ (انتہیٰ)
تو یہی دلیل متنازعہ فیہ محل کی ہوئی۔ نماز عیدین اور جنازہ کی تکبیر تحریمہ کے ساتھ رفع الیدین سب کے نزدیک ثابت ہے۔ البتہ زائد تکبیرات میں اختلاف ہے بعض احادیث سے عیدین کی نمازوں کی زوائد تکبیرات میں رفع الیدین کا استدلال کیا جاتا ہے، لیکن وہ محل نظر ہے۔ جس کا حاصل خلاصہ یہ ہے، کہ نماز عیدین کی تکبیروں میں رفع الیدین کے متعلق کوئی صریح دلیل نہیں، امام ابن حزم رحمہ اللہ کا فرمان ہے:
’ لَم یَصِح قَطُّ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِﷺ رَفَعَ فِیهِ یَدَیهِ ‘المحلی ۵/ ۸۳۔ ۸۴
’’رسول اللہ ﷺ سے قطعاً ثابت نہیں کہ آپ نے ان تکبیروں میں رفع الیدین کی ہو۔‘‘
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! کتاب ’’القول المقبول‘‘ (لتلمیذی حافظ عبد الرؤف، شارجہ) اس طرح جنازہ کی زوائد تکبیرات میں بھی رفع الیدین مرفوع حدیث سے ثابت نہیں۔ ملاحظہ ہو! احکام الجنائز(علامہ البانی ص: ۱۱۶) ۔ تاہم ابن عمر سے موقوف بسندِ صحیح ثابت ہے۔ بیہقی: ۴/ ۴۴
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب