السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
’’مجمع الزوائد‘‘کی روایت ہے کہ رفع الیدین میں ہاتھ (ہتھیلیاں) قبلۂ رُخ ہوں ’’تخریج صلوٰۃ الرسول‘‘ میں سندھو صاحب نے یہ حدیث ضعیف بتائی ہے۔ جو علماء کرام ہر قسم کی ضعیف حدیث سے قطعاً گریز کرتے ہیں، ان کے نزدیک ہاتھوں کا رُخ کس طرف ہو؟ اور اس کی دلیل کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسئلہ ہذا میں دیگر اہلِ علم کا موقف تہدید کا ہے۔ سنن ابوداؤد میں حدیث ہے:
’ کَانَ رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ اِذَا دَخَلَ فِی الصَّلٰوةِ رَفعَ یَدَیهِ مَدًّا۔‘ سنن أبی داؤد،بَابُ مَنْ لَمْ یَذْکُرِ الرَّفْعَ عِنْدَ الرُّکُوعِ،رقم:۷۵۳
یعنی ’’رسول اﷲ ﷺجب نماز میں داخل ہوتے تو اپنے دونوںہاتھوں کو لمبا کھینچ لیتے۔‘‘
علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ لَا مَطعَنَ فِی إِسنَادِهٖ۔‘
یعنی اس حدیث کی سند میں کوئی جرح نہیں۔ پھر’’مدّا‘‘ کی تشریح میں رقمطراز ہیں:
’ یَجُوزُ اَن یَّکُونَ مُنتَصِبًا عَلٰی المَصدَرِیَّةِ بِفِعلٍ مُقَدَّرٍ، وَهُوَ یَمُدُّ هُمَا مَدًّا۔ وَ یَجُوزُ اَن یَّکُونَ مُنتَصِبًا عَلَی الحَالِیَةِ۔ أَی رَفَعَ یَدَیهِ فِی حَالِ لِکَونِهٖ مَدَّ لَهُمَا اِلٰی رَاسِهٖ۔ وَ یَجُوزُ اَن یَّکُونَ مَصدَرًا مُنتَصِبًا بِقَولِهٖ رَفَعَ: لِاَنَّ الرَّفعَ بِمَعنَی المَدِّ، اَصلُ المَدِّ فِی اللُّغَةِ: اَلجَرُّ۔ قَالَهُ الرَّاغِبُ، وَلاِرتِفَاعُ قَالَهُ الجَوهَرِیُّ، وَ مَدُّ النَّهَارِ اِرتِفَاعُهُ وَ لَهٗ مَعَانٍ اُخرٰی۔ ذَکَرَهَا صَاحِبُ القَامُوسِ ب وَغَیرُه۔
وَ قَد فَسَّرَ ابنُ عَبدِ البَرِ اَلمَدّ اَلمَذکُورَ فِی الحَدِیثِ بِمَدِّ الیَدَینِ فَوقَ الاُذُنَینِ مَعَ الرَّاسِ۔ اِنتَهٰی۔ وَالمُرَادُ : مَا یُقَابِلُ النَشرَ المَذکُورَ فِی الرِّوَایَةِ الاُخرٰی ، لِأَنَّ النَّشرَ تَفرِیقُ الاَصَابِعِ ‘نیل الأوطار:۱۸۳/۲
حاصل یہ کہ آپﷺ اپنے دونوں ہاتھوں کو سر کی طرف لمبا کرکے اٹھاتے تھے اور یہ انگلیوں کو پھیلانے کے بالمقابل ہے۔ کتاب ’’صفۃ الصلوٰۃ‘‘میں علامہ البانی فرماتے ہیں: ’ کَانَ یَرفَعُهُمَا مَمدُودَة الاَصَابِعَ لَا یُفَرِّجُ بَینَهَا وَ لَا یَضُمَّهَا‘ (ص:۵۶)یعنی نبیﷺ انگلیاںلمبی کرکے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے۔ نمازی نہ ان میں کشادگی کرے اور نہ ان کو ملائے۔ ہاتھوں کا رُخ قبلہ کی طرف ہونا چاہیے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے ’’نیل الأوطار‘‘(۲/۱۸۸) میں بحوالہ ابوداؤد روایت نقل کی ہے۔
’ حَتّٰی یُحَاذِی بِظَهرِ کَفَّیهِ المَنکَبَینِ وَ بِاَطرَافِ اَنَامِلِهِ الاُذنَینِ ۔‘
دوسری روایت میں ہے:
’کَبَّرَ فَحَاذٰی بِاِبهَامِیهِ اُذُنَیهِ‘مستدرك علی الصحیحین للحاکم، بَابٌ أَمَّا حَدِیثُ أَنَسٍ ،رقم:۸۲۲
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب