السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا حضور نبی کریمﷺ اپنی ہر نماز میں رفع الیدین کرتے رہے؟ اور آپﷺ اپنی تمام زندگی رفع الیدین کرتے رہے یا آپﷺ نے اسے ترک کردیا تھا؟
بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپﷺ کبھی کبھی رفع الیدین کرتے تھے اور کبھی نہیں کرتے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ آپﷺ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اسے ترک کردیا تھا؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمادیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زیرِبحث مسئلہ سے غالباً سائل کا مقصود قبل از رکوع اور بعد از رکوع رفع الیدین ہے۔ اسی تقدیر پر ہم آئندہ موضوع پر بحث کریں گے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا ثبوت غالباً حدیث کی ہر کتاب میں موجود ہے۔ ائمہ محدثین میں سے کوئی ایک بھی مؤلف ایسا نہیں پایا جاتا ، جس نے اس کے نسخ کی تبویب (باب) قائم کیا ہو۔ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ان کے نزدیک دعویٰ نسخ کی کوئی حقیقت نہیں۔ اسی بناء پر مولانا عبد الحی حنفی فرماتے ہیں:
’ اِنَّ ثُبُوتَه عَنِ النَّبِیِّﷺ أَکثَر،ُ وَ أَرجَحُ۔ وَ أَمَّا دَعوٰی نَسخِهِ، فَلَیسَت بِمُبَرهَنٍ عَلَیهَا بِمَا یَشفِی العَلِیلَ ، وَ یُروِی الغَلِیلَ ‘التعلیق الممجد
یعنی رسول اکرمﷺ سے رفع الیدین کرنے کا بہت کافی اور نہایت عمدہ ثبوت ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ رفع الیدین منسوخ ہے ان کا قول بے دلیل ہے۔
اور حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ جب رکوع کرنے کا ارادہ کرے تو رفع الیدین کرے، اور جب رکوع سے سر اٹھائے اس وقت بھی رفع الیدین کرے۔ میں رفع الیدین کرنے والوں کو نہ کرنے والوں سے اچھا سمجھتا ہوں۔ کیونکہ رفع الیدین کرنے کی حدیثیں بہت زیادہ ہیںاور بہت صحیح ہیں۔ حجۃ اللہ البالغۃ:۴۳۴/۲
غور فرمائیے …!! کیا اس منطق کو حضرت شاہ صاحب نہ پا سکے کہ رفع الیدین تو منسوخ ہے، اور میں ان لوگوں سے اظہار محبت کیوں کر رہا ہوں، جو رفع الیدین پر عامل ہیں۔ جب کہ امر واقعہ اس کے خلاف ہے اور حنفی مذہب کی مستند کتاب ’’درّمختار‘‘ میں ہے کہ جس نے کہا کہ رفع الیدین سے نماز میں نقصان آتا ہے، اس کا قول مردود ہے اور رکوع میں جانے سے اور رکوع سے اٹھنے کے وقت رفع الیدین کرنے سے کچھ نقصان نہیں ہے۔(۵۸۴/۱)
پھر مذاہبِ اربعہ میں سے تین مذہب مالکیہ، شافعہ، حنابلہ رفع الیدین کے حامی ہیں۔ کیا یہ سب لوگ (نعوذ بااﷲ) منسوخ پر عمل کرتے ہیں۔ ان کو نسخ کا علم نہ ہوسکا ہو۔ بعیداز عقل ہے …… پھر یہی نہیں کوفیوں کے ماسوا جملہ محدّثین وفقہاء اس کے قائل تھے۔ ابن عساکر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کا انتقال اسی مسلک پرہوا تھا۔ (۱۵/۷۸/۲) بلکہ ہمیں تو بذاتِ خود حنفیہ سے بھی ایسے افراد نظر آتے ہیں ، حنفی ہونے کے باوجود ان کا عمل رفع الیدین پر تھا۔
چنانچہ قاضی ابو یوسف کے شاگرد عصام بن یوسف ابو عصمہ کے بارے میں یہ بات مشہور ہے:
’ کَانَ یَرفَعُ یَدَیهِ عِندَ الرَّکُوعِ وَالرَّفعِ مِنهُ‘الفوائد ص۱۱۶، بحواله صفة صلوةالنّبی ص ۲۶
یعنی وہ رکوع کو جاتے وقت، اور اٹھتے وقت رفع الیدین کرتے تھے۔
اس روایت پر حافظ ابن حجر رحمہ الله نے سکوت کیا ہے جو اس کے قابلِ استدلال ہونے کی دلیل ہے اور حافظ زیلعی حنفی نے بھی ’’نصب الرایہ ‘‘میں اس پر کلام نہیں کیا۔ نیز مولانا ظفر احمد عثمانی فرماتے ہیں:
’ اِنَّ سَکُوتَهٗ فِی التَّخلِیصِ عَلٰی حَدِیثٍ یَدُلُّ عَلٰی صِحَّتِهٖ أَو حَسنِهٖ‘ انهاء السکن ۲۴
یعنی ’’حافظ ابن حجر رحمہ الله کا تلخیص میں سکوت اس بات پر دال ہے کہ حدیث ہذا صحیح ہے یا حسن ۔‘‘
اور امام ابن دقیق العید نے باقاعدہ اس سے استدلال کیا ہے، کہ رفع یدین منسوخ نہیں ہے اور صاحب ’’سفر السعادۃ ‘‘ علاّمہ مجدالدین فیروز آبادی رقمطراز ہیں: کہ کثرتِ روایات کی و جہ سے( تین مواقع پر ثابت شدہ رفع الیدین) متواتر حدیث کے مشابہ ہے۔ اس مسئلہ میں چار سو حدیثیںاور آثار آئے ہیں۔ عشرہ مبشرہ صحابہ( جنہیں حضورﷺ نے ان کی زندگی میں جنتی کہا تھا) نے ان کو روایت کیا ہے۔ رسول اﷲ ﷺاس طرح نماز پڑھتے رہے۔ یہاں تک کہ اس دنیا سے رحلت فرماگئے۔ اس کے سوا کچھ ثابت نہیں(بحوالہ ’’صلوٰۃ الرسول‘‘ﷺمولانا سیالکوٹی مرحوم) مسئلہ ہذٰا کو احادیث میں’’کان یقیل یا کان یصلّی‘‘سے تعبیر کیا گیا ہے ،جو اس کے استمرار کی دلیل ہے ۔ اہلِ علم اس بات سے واقف ہیں کہ کام فعل مضارع پردوام و استمرار کا فائدہ دیتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’تلخیص الحبیر‘‘ میں ایک روایت نقل کی جس کے الفاظ یوں ہیں:
’ زَادَ البَیهَقِیُّ فَمَا زَالَت تِلكَ صَلَاتُهٖ حَتّٰی لَقِیَ اللّٰهَ ۔‘ (۱/ ۲۱)
’’بیہقی نے یہ زیادتی کی ہے کہ آپ کی نماز اسی طرح رفع یدین کے ساتھ رہی، حتیٰ کہ اﷲ سے جاملے۔‘‘
حدیث ہذا دوام واستمرار رفع یدین کی واضح دلیل ہے۔ اس اضافہ پر بعض حنفیہ کا اعتراض ہے۔ یہ ٹکڑا تو ’’سنن کبری‘‘ بیہقی میں موجود نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’سنن کبریٰ‘‘ بیہقی کا حوالہ نہیں دیا بلکہ بیہقی کی طرف نسبت کی ہے۔ مختصر خلافیات بیہقی میں یہ الفاظ موجود ہیں، اس کتاب کا قلمی نسخہ ’’مکتبہ حرم مکی‘‘ میں محفوظ ہے۔ اس کا فوٹو میرے پاس موجود ہے۔ اس میں واضح طور پر یہ الفاظ تحریرہیں:
البتہ بعض متعصب حنفیوں نے حضرت جابر بن سمرہ کی روایت:
’ قَالَ خَرَجَ عَلَینَا رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ فَقَالَ مَالِی أَرَاکُم رَافِعِی أَیدِیکُم، کَأَنَّهَا اَذنَابُ خَیلٍ شمسٍ؟ اُسکُنُوا فِی الصَّلٰوةِ۔‘ صحیح مسلم،بَابُ الْأَمْرِ بِالسُّکُونِ فِی الصَّلَاةِ، وَالنَّهْیِ عَنِ الْإِشَارَةِ بِالْیَدِ…الخ ،رقم:۴۳۰
’’کہا، رسول اﷲ ﷺہمارے پاس تشریف لائے۔ فرمایا کہ کیا ہے میں تمہارے ہاتھوں کو اٹھے ہوئے دیکھتا ہوں گویا کہ وہ شریر گھوڑوں کی دُمیں ہیں۔‘‘
سے اس کو منسوخ قرار دینے کی ناکام سعی کی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے جواب میں رقمطراز ہیں: اس میں رفع یدین کے مخصوص ہیئت پر مخصوص مقام میں منع ہونے کی دلیل نہیں۔اور وہ رکوع کو جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے وقت۔ اس لیے کہ یہ طویل حدیث بھی مسلم ہی میں حضرت جابربن سمرہ سے مروی ہے جس میں یہ ہے کہ صحابہ’’السّلام علیکم ورحمۃ اﷲ‘‘ کے وقت دائیں بائیں اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے تھے۔( صحیح مسلم،بَابُ الْأَمْرِ بِالسُّکُونِ فِی الصَّلَاۃِ، وَالنَّہْیِ عَنِ الْإِشَارَۃِ بِالْیَدِ، …الخ،رقم: ۴۳۱) صرف اس سے روکا گیا ہے۔
چند سطور بعد امام بخاری رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں جس نے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بوقت ِ رکوع رفع یدین کے منع ہونے پر دلیل لی، اس کا علم سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بات مشہور ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ یہ حالت تشہد کا واقعہ ہے ملاحظہ ہو! التلخیص(۱/ ۲۲۱)
صحیح مسلم کے حواشی پر امام نووی رحمہ اللہ نے بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے:
’ بَابُ الأَمرِ بِالسَّکُونِ فِی الصَّلٰوةِ وَالنَّهیِ عَنِ الاِشَارَةِ بِالیَدِ وَ رَفعِهَا عِندَ السَّلَامِ …الخ‘
حنفیوں نے اس کا جواب یوں دیا ہے کہ ُاسْکُنُوا فِی الصَّلٰوۃِ الفاظ عام ہیں اور اصولِ فقہ کا قاعدہ ہے: اَلعِبرَةُ بِعُمُومِ اللَّفظِ لَا بِخُصُوصِ السَّبَبِ ۔یعنی اعتبار عمومی الفاظ کا ہوتا ہے نہ کہ خصُوصی سبب کا۔
بناء بریں یہ الفاظ اپنے عموم کے اعتبار سے ’’عندالرکوع‘‘ رفع یدین کو بھی شامل ہیں۔ حضرات اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ حدیث ہذٰا اپنے عموم کے اعتبار سے تکبیر تحریمہ تکبیرِ قنوت اور تکبیرِ عیدین وغیرہ سب کو شامل ہے۔ لہٰذا حنفیہ کو ان مواقع پر بھی ’’رفع الایدی‘‘ کا قائل نہیں ہونا چاہیے۔ جب کہ حقیقتِ حال اس کے خلاف ہے۔ صاحبِ ’’ہدایہ‘‘ نے امام شافعی رحمہ اللہ کے خلاف دلیل قائم کرتے ہوئے کہا کہ ’’عند الرکوع‘‘ رفع یدین کا وجود نہیں۔ اس کے لیے ایک مصنوعی روایت سے احتجاج لینے کی سعی کی ہے۔ جس کے الفاظ یوں ہیں:
’ لَا تُرفَعُ الأَیدِی إِلَّا فِی سَبعِ مَوَاطِنَ : تَکبِیرَةِ الاِفتِتَاحِ، وَ تَکبِیرَةِ القُنُوتِ، وَ تَکبِیرَةِ العِیدَینِ، وَ ذَکَر الأَربَعَ فِی الحَجِّ ‘هدایه جز، اوّل ص۹۶
دوسری بات یہ ہے کہ حنفی اصولوں کی سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ ان کے اصول فروع کے تابع ہیں۔ جب کہ دیگر مذاہب میں بالعموم اور مذاہبِ ثلاثہ، مالکیہ، شافعیہ، حنابلہ کے ہاں بالخصوص فروع اصولوں کے تابع ہیں۔ اسی بناء پر نسبتاً ان کا استقامت کا پہلو نمایاں ہے جب کہ حنفیوں کی حالت یہ ہے کہ جب کسی مسئلہ میں ٹکراؤ نظر آتا ہے، وہاں ایک نیا اصول گھڑ لیتے ہیں۔ دوسری جگہ یہی اصول ٹوٹ جاتا ہے۔ اس بناء پر ’’اصول الشاشی‘‘ کو مجموعہ تضادات کہا جاتا ہے۔ بلکہ صاحب اصول شاشی انکار حدیث کے بانی نظر آتے ہیں۔ ’’واﷲ المستعان‘‘
بالإختصار زیرِبحث مسئلہ پر غور فرمائیں! ’اُسکُنُوا فِی الصَّلٰوۃِ‘ میں حنفیوں نے بزعمِ خود عموم کو لیا ہے۔اور سببِ ورود حدیث کو نظر انداز کر دیا ہے۔ دوسری طرف جمہور اہلِ علم کا مسلک یہ ہے کہ عورت ’’اعسار بالنفقہ‘‘(اخراجات کی تنگی) کی بناء پر خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے۔ قرآن کی آیت ﴿وَ لَاتُمسِکُوهُنَّ ضِرَارًا لِّـــتَعتَدُوا﴾ ’’اور اس نیت سے ان کو نکاح میں نہ رکھو کہ انہیں تکلیف دو‘‘۔کے عموم سے ان کا استدلال ہے۔ لیکن حنفی مسلک میں خرچہ کی تنگی کی بناء پر عورت طلاق کا مطالبہ کرنے کی مجاز نہیں۔ جب ان لوگوں کے سامنے عمومی آیت﴿وَ لَاتُمسِکُوهُنَّ ضِرَارًا لِّـــتَعتَدُوا﴾پیش کی جاتی ہے، تو اس کا جواب بجائے عموم پر عمل کے یہ دیتے ہیں کہ آیت ہذا اپنے سببِ نزول کے ساتھ مخصوص ہے۔ جس طرح کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دیتا، جب عدت گزرنے لگتی تو وہ رجوع کرلیتا تب اﷲ رب العزت نے آیت﴿وَ لَاتُمسِکُوهُنَّ ضِرَارًا لِّـــتَعتَدُوا﴾ نازل فرمائی۔
غور فرمائیے !یہاں حنفیوں نے عمداً عموم آیت کو چھوڑ کر سبب سے مقید کیا ہے، جب کہ حدیث کے عموم کو لے لیا ہے، اور سبب کو ترک کردیا ہے۔ اس مثال سے معلوم ہوا کہ اصول کے نام پر بے اصولی کرنا حنفیوں کا طرّۂ امتیاز ہے۔ ’’ اَلحَذرُ کُلَّ الحَذرِ اَیُّهَا العَاقِلُ البَصِیرُ۔‘‘
خلاصہ یہ ہے کہ رکوع میں جاتے ہوئے، اور رکوع سے اٹھ کر رسول اﷲ ﷺنے تاحیات رفع یدین کیا ہے۔ اس کا ترک قطعاً آپ سے ثابت نہیں۔فرمایا: ’ صَلُّوا کَمَا رَأَیتُمُونِی اُصَلِّی‘"صحیح البخاری،بَابُ الأَذَانِ لِلمُسَافِرِ، إِذَا کَانُوا جَمَاعَةً، وَالإِقَامَةِ، وَکَذَلِكَ بِعَرَفَةَ وَجَمعٍ… الخ، رقم: ۶۳۱" نماز ٹھیک اس طرح پڑھو جس طرح تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا۔
دعا ہے! اﷲ جل جلالہ جملہ مسلمانوں کو سنت پر عمل اور اس پر ثابت قدمی کی توفیق بخشے۔آمین!
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب