السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ظہر اور عصر کی نمازوں میں امام قرأت نہیں کرتا بلکہ خاموشی سے امامت کرتا ہے ان نمازوں میں مقتدیوں کو سورہ فاتحہ کے بعد کوئی سورت پڑھنی چاہیے یا کہ سورۃ فاتحہ کے بعد خاموش کھڑے ہو کر امام کے رکوع جانے کا انتظار کرنا چاہیے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سرّی نمازوں میں ’’فاتحہ‘‘ کے علاوہ قرأت کے اضافہ کا جواز ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت واضح طور پر اس کی دلیل ہے۔ مشکوٰۃ مع المرعاۃ: ۶۰۲/۱
اور مؤطا امام مالک میں حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما کا فعل بایں الفاظ مروی ہے :
’ کَانَ یَقرَأ فِی الاَربَعِ جَمِیعًا فِی کُلِّ رَکعَةٍ بِاُمِّ القُراٰنِ ، وَ سُورَةٍ مِّنَ القُراٰنِ ‘مؤطا امام مالك،الْقِرَاءَةُ فِی الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاء ِ،رقم:۲۶۰
یعنی ’’ابن عمر رضی اللہ عنہما چار رکعتی نماز کی ہر رکعت میں فاتحہ اور مزید کوئی سورت پڑھتے تھے۔‘‘
ظاہر یہ ہے کہ یہ معاملہ فرائض کا ہے، جس طرح کہ امام محمد رحمہ اللہ کی روایت میں تصریح موجود ہے:
’ فِی الاَربَعِ جَمِیعًا مِنَ الظُّهرِ ، وَالعَصرِ ‘
اور صاحب ’’المرعاۃ ‘‘ فرماتے ہیں:
’ فَالظَّاهِرُ اَنَّهٗ یَجُوزُ الزِّیَادَةُ عَلَی الفَاتِحَةِ فِی الاُخرَیَینِ مِن غَیرِ کَرَاهَةٍ ‘ (ا/۶۰۰)
نیز امام شافعی رحمہ اللہ جدید قول کے مطابق اور امام مالک و احمد; نے بھی جواز کو اختیار کیا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب