سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(526) سری اور جہری نمازوں میں سورۃ فاتحہ اور دیگر سورتوں کی قرأت

  • 24536
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 525

سوال

(526) سری اور جہری نمازوں میں سورۃ فاتحہ اور دیگر سورتوں کی قرأت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شیخ الحدیث مولانا حافظ ثناء اﷲ صاحب، امام ترمذی رحمہ اللہ اپنی جامع الترمذی کے ’بَابُ مَا جَاءَ فِی تَركِ القِرَائَةِ خَلفَ الاِمَامِ اِذَا جَهَرَ الاِمَامُ بِالقِرَائَةِ‘کے حاشیہ میں یہ روایت لائے ہیں کہ:

’’ہم سے اسحاق بن منصور انصاری نے انھوں نے معن سے انھوں نے مالک سے انھوں نے ابی نعیم وہب سے سنا، کہتے تھے کہ ’’ جس نے پڑھی ایک رکعت کہ نہ پڑھے اس میںسورۃ الفاتحہ تو اُس نے نماز ہی نہیں پڑھی مگر یہ کہ ہو پیچھے امام کے یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (جامع الترمذی مترجم، مسجد کے احکام، باب قرأت نہ کرنے کے بیان میں جب امام جہر کرتا ہو۔(۱/۱۵۵) ناشر محمد علی، کارخانہ اسلامی کتب خان محل دستگیر کالونی ۔کراچی)

جب کہ ابن ماجہ میں مروی ہے، جابر بن عبد اﷲ کہتے ہیں کہ ہم ظہر اور عصر کی نماز میں امام کے پیچھے پہلی دو رکعتوں میں سورۃ الفاتحہ اور ایک سورۃ پڑھتے تھے اور اخیر کی دو رکعتوں میں صرف سورۃ الفاتحہ پڑھتے تھے۔( سنن ابن ماجہ،کتاب اقامۃ الصلوٰۃ والسنۃ فیہا،بَابُ الْقِرَاء َۃِ خَلْفَ الْإِمَامِ،رقم:۸۴۳) اور علامہ سندھی حاشیہ میں حافظ ابو الحجاج المزی سے نقل کرتے ہیں کہ ’ھٰذَا اِسنَادٌ صَحِیحٌ وَ رِجَالُہٗ ثِقَاتٌ‘ اور یہی روایت جزء القراء ۃ بیہقیء میں بھی موجود ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ان دونوں روایتوںمیں کس طرح تطبیق دی جا سکتی ہے ؟ پہلی روایت کے بارے میں امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور دوسری روایت کے بارے میں جو ابن ما جہ اور جزء القراء بیہقی میں ہے۔ علامہ سندھی کہتے ہیں:’ ھٰذَا اِسنَادٌ صَحِیحٌ وَ رِجَالُہٗ ثِقَاتٌ‘ آپ ہمیں یہ بتائیں کہ دونوں روایتوں میں سے کس روایت کی سند میں ضعف ہے اور عام مسلمانوں کو کیسے بتائیں کہ جابر بن عبد اﷲ کا قرأت خلف الامام کے متعلق موقف کیا تھا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ان دونوں روایات کے درمیان وجہ جمع یوں ہے، کہ ممکن ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ  کا مسلک یہ ہو، کہ امام کی جہری قرأت کی صورت میں مقتدی قرأت نہ کرے۔ جس طرح کئی ایک اہلِ علم اس بات کے قائل ہیں۔ البتہ سری میں مقتدی کو قرأت کرنی چاہیے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے نزدیک اس حالت کا تعلق مُدرِکِ رکوع سے ہو، کہ اس حالت میں ملنے والے سے قرأت ’’فاتحہ‘‘ ساقط ہو جاتی ہے۔ امام اسحاق بن ابراہیم منظی نے یہی توجیہ کی ہے، جس طرح کہ امام ابن خزیمہ نے ان سے بیان کیا ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! کتاب القراء ۃ بیہقی۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ  کے موقف کی وضاحت ہو چکی اور عام کم علم مسلمانوں کو رسول اﷲﷺ کے فرامین سے آگاہ کرنا چاہیے، جن کی اقتداء کا حکم ربانی ہے۔ بے شمار ایسی احادیث موجود ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے، کہ سری اور جہری نمازوں میں سورۃ فاتحہ کی قرأت ضروری ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! تحقیق الکلام، علامہ عبد الرحمن مبارکپوری۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:464

محدث فتویٰ

تبصرے