سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(519) نماز میں مخصوص آیات کا جواب دینا

  • 24529
  • تاریخ اشاعت : 2024-11-12
  • مشاہدات : 1245

سوال

(519) نماز میں مخصوص آیات کا جواب دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ عمر کہتا ہے کہ﴿اَلَیسَ اللّٰهٌ بِأَحکَمِ الحَاکِمِینَ﴾ اور ﴿سَبِّحِ اسمَ رَبِّكَ الاَعلٰی﴾ اور ﴿فَبِاَیِّ حَدِیثٍ بَعدَهٗ یُؤمِنُونَ﴾ وغیرہ آیات کا جواب جس طرح قاری کو دینا چاہیے اسی طرح سامع کو بھی دینا چاہیے اور زید کہتا ہے کہ ان آیات کا جواب صرف قاری کو دینا چاہیے سامع کو نہیں دینا چاہیے۔ پس ان دونوں سے کس کا قول حق و صواب ہے۔ بینوا توجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئول عنہا میں عمر کا قول أقرب الی الصواب (حق سے زیادہ قریب) ہے یعنی آیاتِ مذکورہ کا جواب جس طرح قاری کو دینا چاہیے، اسی طرح سامع کو بھی دینا چاہیے اس لیے کہ رسول اللہﷺ کا بوقتِ قرأۃ ان آیتوں کا جواب دینا ثابت ہے اور آپ ﷺکاقول و فعل امت کے لیے ہر وقت دستور العمل ہے تاوقتیکہ اس کی تخصیص کسی وقتِ خاص ، یا شخصِ خاص یا حالت ِ خاص کے ساتھ ثابت نہ ہو مثلاً ’’رفع الیدین‘‘ اور ’’وضع الیدین علی الصدر‘‘ (سینے پر ہاتھ باندھنا) اور ’’رفع سبابہ فی التشہد‘‘ (تشہد میں انگلی اٹھانا) اور ’’جلسۂ استراحت‘‘ اور ’’توُرک‘‘ اور ’’قبل افتتاح قرأت‘‘ کے ’’اَللّٰهُ اَکبَرُ کَبِیرًا وَالحَمدُ لِلّٰهِ کَثِیرًا وَ سُبحَانَ اللّٰهِ بُکرَةً وَّ اَصِیلًا‘‘ یا ۔ ’’اَنِّی وَجَّهتُ وَجهِی لِلَّذِی فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالاَرضَ‘‘ یا  ’’اَللّٰهُمَّ بَاعِد بَینِی وَ بَینَ خَطَایَای‘ پڑھنا یا رکوع میں ’’سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ المَلَائِکَةِ وَالرُّوحُ‘‘ اور سجدہ میں ’’سَجَدَ لَكَ وَجهِی وَ عِظَامِی وَ مُخِّی‘‘ پڑھنا وغیرہ۔ یہ سب ایسے افعال ہیں جن کی مسنونیت میں کسی طرح کا شک نہیں ہو سکتا اور امت ِ محمدیہ میں سے ہر شخص کے لیے یہ افعال مسنون ہیں، خواہ وہ شخص امام ہو یا مقتدی، خواہ منفرد ہو حالانکہ یہ کہیں ثابت نہیں کہ رسول اللہﷺ نے اپنے مقتدیوں کو ان امور کی تعلیم فرمائی ہو یا عام طور پر فرمایا ہو کہ جو شخص جب نماز پڑھے تو ایسا کرے پھر بھی یہ احکام ہر شخص کے لیے اسی وجہ سے عام رہے کہ قول و فعل۔ پیغمبرﷺ تمام افرادِ امت کے لیے دستور العمل ہوتا ہے جب تک حدیث مرفوع سے ہی تخصیص ثابت نہ ہو:’’قَالَ اللّٰهُ تَعَالٰی﴿لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللّٰهِ اُسوَةٌ حَسَنَةٌ﴾(الاحزاب:۲۱)

پس بناء بر تقریر ھٰذا ان آیات کا جواب ہر شخص کو دینا چاہیے۔ عام ازیں کہ قاری ہو یا سامع، نماز میں ہو یا غیر نماز میں، امام ہو یا مقتدی یا منفرد ’’اِتِّبَاعًا لِفِعلِ النَّبِیِّ ﷺ۔‘‘

اس کے بعد حضرت میاں صاحب رحمہ اللہ  نے ابوداؤد، ترمذی ، نسائی، ابن ماجہ اور صحیح مسلم سے ان احادیث کو نقل کیا ہے جن سے آنحضرتﷺ سے ان آیات کا جواب دینا ثابت ہوتا ہے۔ اس کے بعد آپ ’’جامع ترمذی‘‘ کے حوالہ سے وہ حدیث لائے ہیں جس میں آپ ﷺ نے صحابہ کی خاموشی پر جنوں کے جواب دینے کا تذکرہ فرمایا: اور صحابہ رضی اللہ عنہم  کو ’’سورۂ رحمن‘‘ کی مخصوص آیت کے جواب کی ترغیب دی، ان تمام روایات کو نقل کرنے کے بعد میاں صاحب رحمہ اللہ  فرماتے ہیں۔

’’اس حدیث ’’ترمذی‘‘ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس قسم کی آیتوں کا جواب قاری یا مصلی کے اعتبار سے نہیں ہے۔ بلکہ اس کلام پاک کے معنی ٰ اور موقع کے لحاظ سے ہے۔ جب ہی تو آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کے سکوت پر اعتراض فرمایا: اور جنات کے جواب دینے کو مدحیہ طور پر ذکر فرمایا: حالانکہ آپﷺ نے اس سے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کو اس جواب کی تعلیم نہیں فرمائی تھی۔پس معلوم ہوا کہ خود رسول اللہﷺ نے بھی جن جن آیات کا جواب دیا ہے وہ اُس خصوصیت سے نہیں کہ آپﷺ امام یا قاری تھے بلکہ ان آیتوں کا معنیٰ اور موقع ہی ایسا ہے کہ جب وہ آیت پڑھی جائے، تو پڑھنے والا اور سننے والا ، اس کا مناسب جواب ، جو احادیث سے ثابت ہو، دے۔

اس کے بعد حضرت صاحب نے اپنی اس تقریر کی تائید میں جامع صغیر کی شرح، شرح صحیح مسلم اور کتاب الاذکار للنووی کی بعض عربی عبارات تحریر فرمائی ہیں جنھیں طوالت کے خوف سے حذف کر رہے ہیں۔ ان عبارات کا جوہری مفہوم یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا یہ قول﴿اَلَیسَ ذٰلِكَ بِقٰدِرٍ عَلٰی اَن یُّحیِیَ المَوتٰی﴾(القیامۃ:۴۰) اور ﴿اَلَیسَ اللّٰهُ بِاَحکَمِ الحَاکِمِینَ﴾(التین:۸)  تو  ’’بَلٰی‘‘ کہے۔ کیونکہ ان آیات میں سوال کیا گیا ہے جس کا جواب دینا چاہیے اور خطاب کا حق ہے، کہ مخاطب اس کا مناسب جواب دے۔ اگر نہ دے گا تو سامع غافل اور بے خبر تصور ہو گا یا جیسے کوئی جانور ہے جو آواز تو سنتا ہے لیکن مطلب نہیں سمجھتا یا کسی اندھے، گونگے، بہرے کی طرح جسے کچھ سمجھ نہ آئے۔ یہ حالت بہت بُری حالت ہے۔(مفہوم عبارت نقل کردہ میاں صاحب)

اس ساری تحقیق کا خلاصہ یہ ہے، کہ مذکورہ آیات کا جواب قاری اور امام کی طرح سامع اور مقتدی کے لیے بھی جائز اور مستحب ہے اگرچہ واجب کسی پر نہیں۔ بعض نوجوان اہلِ علم ایسے مسائل میں تشدد پر اتر آتے ہیں اور پُرسکون ماحول میں توحُّش اور ارتعاش پیدا کرنا وجہِ افتخار خیال کرتے ہیں۔ یہ رَوش سلف کے تعامل کے قطعی خلاف ہے۔ ضعیف حدیثوں سے وجوب تو نہیں۔ استحباب بہرحال ثابت ہو جاتا ہے اور جہاں دلائل متعارض ہوں، وہاں تطبیق کے علاوہ توفیق کا عمل بھی مناسب ہوتا ہے اور دلائل متعارضہ کا حق یہی ہے کہ مسئلہ میں وسعت رہنے دی جائے، اور کسی کو کوئی خاص اور معین صورت اختیار کرنے پر نہ مجبور کیا جائے، اور نہ ہی دوسری صورت اپنانے والوں پر طعن و تشنیع کی جائے اور نہ ہی فریقین سے کسی کو بدعتی یا تارکِ حدیث کہا جائے۔ کیونکہ سلامتی کی راہ یہی ہے۔ (  ہفت روزہ اہلِ حدیث:۲۰/ اکتوبر۔۳ نومبر۱۹۷۸ء )

تعاقب از مولانا حافظ ثناء اللہ خان صاحب

فروعی مسائل میں اہلِ حدیث کا طرزِ فکر وعمل:

مؤقر جریدہ  ہفت روزہ ’’ اہلِ حدیث‘‘ لاہور مؤرخہ ۲۰/ اکتوبر ۱۹۷۸ء میں قرآنی آیات کے جواب کے سلسلہ میں میری رائے کے ساتھ، ہمارے محترم دوست مدیراعلیٰ اہلِ حدیث نے اپنی مخالفانہ رائے کا اظہار بھی ضروری سمجھا ہے، اور اس کے لیے انھوں نے جماعت اہلِ حدیث کی دو مایہ ناز ہستیوں کے فتاویٰ کی اشاعت بھی کی ہے، تاکہ اپنے مدعا کو تقویت دے سکیں۔

جہاں تک ان مبارک ہستیوں کے عزت و احترام اور علم و فضل اور اعلیٰ مقام کا تعلق ہے، ہمیں ان سے کوئی نسبت نہیں، لیکن موصوف مدیر ِ اعلیٰ نے ان کے فتویٰ کو جس انداز میں شائع کیا ہے اور اس ضمن میں اپنی طرف سے جو اصولِ بحث (ضعیف حدیث کے قابلِ عمل ہونے کی) اٹھائی ہے۔ موجودہ علمی انحطاط کے دور میں وہ کئی فتنوں کا دروازہ کھول سکتی ہے، اس لیے میں نے مناسب سمجھا، کہ کم از کم اس بارے میں اہلِ حدیث کے اندازِ فکر کی وضاحت کردوں۔کیونکہ اہلِ حدیث کا نہج فکر مخصوص ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ کسی مسئلہ میں اہلِ حدیث علماء کی دو رائے ہوں۔ لیکن اہلِ حدیث کا مخصوص فکر اگر اپنے امتیازات کھو بیٹھے، تو پھر اس مکتب ِ فکر کے وجود کا جواز ہی باقی نہیں رہتا۔ جیسا کہ بعض موقعوں پر عامۃ الناس علمائے اہلِ حدیث کی مختلف آراء دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں اور اس تذبذب میں پڑ جاتے ہیں، کہ اس میں سے کون سا مسلک اہلِ حدیث کا ہے ، حالانکہ مسلک اہلِ حدیث پیش آمدہ مسائل کے حل میں صرف ایک مخصوص طرزِ عمل سے واسطہ رکھتا ہے۔ جس کی حفاظت علماء اہلِ حدیث پر فرض ہے ۔ ہمارے نزدیک آراء کے باہمی تفاوت کی زیادہ اہمیت نہیں۔ طوالت سے بچنے کے لیے ہم مثالیں پیش کرنے سے احتراز کرتے ہیں۔ غالباً مدیراعلیٰ کو بھی ہمارے اصل اصول سے اختلاف نہیں ہوگا۔

اس تمہید کے بعد ہم اپنے جائزہ کو ’’اہلِ حدیث‘‘ کے علمی اسلوب کی وضاحت کی غرض سے صرف دو نکتوں پر محدود رکھیں گے۔

اوّلاً: مدیر ِ اعلیٰ کا یہ فرمان محدثین کے نزدیک کہاں تک درست ہے کہ :

’’ضعیف حدیثوں سے وجوب تو نہیں، استحباب بہرحال ثابت ہو جاتا ہے۔‘‘

ثانیاً: مسئلہ مذکورہ کی وضاحت کے لیے محترم بزرگوں کے فتوؤں کی اشاعت کا انداز تقلیدی تو نہیں ہے، جب کہ خود ہی یہ بزرگ غیر منقسم ہندوستان میں مُقَلّدین کے خلاف صف آراء رہے۔ شیخ الکل میاں صاحب رحمہ اللہ  نے ’’معیار الحق‘‘ کتاب لکھی اور حضرت الاستاذ محدث روپڑی رحمہ اللہ  کی بیشتر تصانیف کا محور یہی موضوع رہا۔ پہلے نکتہ کے لیے ہم اہلِ حدیث کے متقدمین اور متاخرین، راسخین فی العلم کے چند ایک ارشادات کا مختصر ذکر ہی کافی سمجھتے ہیں۔ ورنہ اس موضوع پر ان بزرگوں نے اس قدر تفصیلی بحثیں کی ہیں کہ ایک مستقل تصنیف ہی اس کی متحمل ہو سکتی ہے اور اس موضوع پر (ان شاء اللہ) کسی فرصت میں ایک مقالہ ہدیۂ ناظرین کروں گا۔ فی الحال ائمہ کے چند ارشادات پیش ِ خدمت ہیں:

اصولِ حدیث کی مشہور کتاب ’’قواعد التحدیث‘‘ میں علامہ جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’فقد حُکِیَ فِیهِ عَن جَمَاعَة مِن الأَئِمَّةأنَّهُم لَا یَرَونَ العَمَلُ بِالحَدِیثِ الضَّعِیفِ مُطلَقًا، کَإِبنِ مُعِینٍ، وَالبُخَارِیِّ، وَ مُسلِمٍ، وَ اَبِی بَکرِ بنِ العَرَبِیِّ الفَقِیهِ، وَ غَیرِهِم، وَ مِنهُمُ ابنُ حَزمٍ‘

یعنی ’’ائمہ اہلِ حدیث کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے، کہ ضعیف حدیث پر عمل مطلقاً ناجائز ہے (خواہ مسئلہ وجوبی ہو یا استحبابی)ان میں سے ابن معین، بخاری، مسلم، ابوبکر بن العربی رحمہم اللہ  وغیرہم ہیں، ابن حزم رحمہ اللہ  کی بھی یہی تحقیق ہے۔‘‘

شیخ الاسلام ابن تیمیہ ’’القاعدۃ الجلیلتہ‘‘(ص:۴)میں فرماتے ہیں:

’وَ لَم یَقُل اَحَدٌ مِنَ الأَئِمَّةِ اِنَّهٗ یَجُوزُ اَن یُّجعَلَ الشَّیئُ وَاجِبًا، اَو مُستَحَبًا بِحَدِیثِ ضَعِیفٍ۔ وَ مَن قَالَ هٰذَا: فَقَد خَالَفَ الاِجمَاعَ‘

یعنی ’’ائمہ میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ کسی ضعیف حدیث سے کسی شے کو واجب یا مستحب قرار دینا جائز ہے۔ وہ اجماع کی مخالفت کرتا ہے۔‘‘

گویا مدیرِ اعلیٰ کی یہ بات کہ ’’ضعیف حدیثوں سے وجوب تو نہیں استحباب بہرحال ثابت ہو جاتا ہے۔‘‘ ائمہ اہلِ حدیث کے اجماع کے خلاف ہے۔ ہند میں اہلِ حدیث اندازِ فکر کے مشہور نقیب نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ  اپنی عربی تفسیر ’’فتح البیان فی مقاصد القرآن‘‘ کے مقدمہ میں فرماتے ہیں:

’ أَخطَأَ مَن قَالَ إِنَّهٗ یَجُوزُ التَّسَاهُلُ فِی الاَحَادِیثِ الوَارِدَةِ فِی فَضَائِلِ الأَعمَالِ ‘

یعنی وہ شخص غلطی پر ہے، جو عقیدہ رکھے کہ فضائلِ اعمال میں ضعیف احادیث کو بھی لینا جائز ہے۔

چونکہ مدیراعلیٰ کو یہ غلطی اہل الرائے کے بعض علماء کے طرزِ عمل سے لگی ہے۔ اس لیے محدثین کے اس مسلک کی وضاحت ہم ان ہی کے حوالہ سے پیش کیے دیتے ہیں۔ چنانچہ مولانا عبد الحئی لکھنوی اپنی تصنیف ’’الاجوبۃ الفاضلہ‘‘ میں مشہور محقق جلال الدین الدوانی رحمہ اللہ  سے نقل فرماتے ہیں:

’اِتَّفَقوا عَلیٰ اَنَّ الحَدِیثَ الضَّعِیف لَا یَثبُتُ بِهٖ اَحکَامُ الخَمسَة الشَّرعِیَّةِ۔ وَ مِنهَا الاِستِحبَابُ‘

یعنی ’’محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ضعیف حدیث سے کوئی حکم شرعی(وجوب ، حرمت ، استحباب کراہت اور اباحت) ثابت نہیں ہوتا۔ ان میں سے استحباب بھی ہے۔ ‘‘

عالم ِ اسلام کے مشہور محدث علامہ ناصر الدین البانی متذکرہ بالا مغالطے (بعض ائمہ حدیث ضعیف حدیث سے احتجاج میں تساہل روا رکھتے ہیں) کا ازالہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں:

’ وَ مَن نَقَلَ عَن اَحمَدَ انَّهٗ کَانَ یَحتَجُّ بِالحَدِیثِ الضَّعِیفِ الَّذِی لَیسَ بِصَحِیحٍ وَ لَا حَسَن، فَقَد غَلَطَ عَلَیهِ ‘القاعدة الجلیلة،ص:۸۵

یعنی جس نے امام احمد رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے، کہ وہ ضعیف حدیث سے بھی دلیل پکڑتے ہیں۔ اس نے آپ پر غلط الزام لگایا ہے۔‘‘

اور علامہ احمد محمد شاکر’’ الباعث الحثیث‘‘(ص:۱۰۱) میں لکھتے ہیں:

’ وَ أَمَّا مَا قَالَهُ الاِمَامُ اَحمَدُ بنُ حَنبَلٍ، وَ عَبدُ الرَّحمٰنِ بنُ مَهدِیٍ، وَ عَبدُ اللّٰهِ ابنُ المُبَارِكِ ، اِذَا رَوَینَا فِی الحَلَالِ، وَالحَرَامِ۔ شَدَدنَا۔ وَ اِذَا رَوَینَا فِی الفَضَائِلِ، وَ نَحوِهَا۔ تَسَاهَلنَا۔ فَاِنَّمَا یُرِیدُونَ بِهٖ فِیمَا أَرجَحُ (وَاللّٰه أَعلَمُ) ان التَّسَاهُلَ إِنَّمَا فِی الأَخذِ بِالحدِیثِ الحَسَنِ الَّذِی لَم یَصِل اِلٰی دَرَجَةِ الصِّحَّةِ۔ فَاِنَّ الاِصطِلَاحَ مِن التفرقة بَینَ الصَّحِیحِ، وَالحَسَنِ، لَم یَکُن فِی عَصرِهِم مُستَقِرًّا وَاضِحًا، بَل کَانَ اَکثَرَ المُتَقَدِّمِینَ لَا یُصَنِّفُ الحَدِیث اِلَّا بِالصِّحَّةِ ۔ أَو الضُّعفِ فَقَط۔‘

یعنی احمد بن حنبل، عبدالرحمن بن مھدی اور عبد اللہ بن مبارک  رحمہ اللہ  کے اس قول، کہ حرام اور حلال کے بارہ میں مروی حدیث میں ہم سختی کرتے ہیں اور فضائلِ اعمال کے بارہ میں ہم نرمی کرتے ہیں کا مفہوم یہ ہے، کہ ان کی نرمی صرف حسن حدیث قبول کرنے تک تھی۔ کیونکہ ان کے زمانہ میں ابھی صحیح اور حسن کا مروجہ فرق نہ تھا۔ بلکہ اکثر متقدمین حدیث کو صحیح کہتے تھے یا ضعیف۔ یعنی وہ حدیث کی صحیح اور ضعیف صرف دو قسمیں کرتے تھے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ  رحمہ اللہ اور مشہور محدث علامہ احمد محمد شاکر رحمہ اللہ  کی توجیہات پیش کرنے کے بعد شیخ البانی ایک اور توجیہ اپنی طرف سے بھی پیش کرتے ہیں، وہ یہ کہ ان کی مذکورہ نرمی دراصل ان کا یہ رواج تھا، کہ وہ ضعیف احادیث کو باسند روایت کرتے تھے۔ کیونکہ اس زمانہ میں ضعیف حدیث کو باسند نقل کرنا، اس کی تصحیح یا تضعیف سے کفایت کرنا تھا۔(ملخصًا)

دراصل قرآنی آیات کے جواب کے بارے میں اس کا استحباب قاری تک محدود رکھنے کے حق میں میری ترجیحی رائے احادیث کے معیار پر مبنی ہے۔ میں نے اپنے جواب میں اس بارے میں وارد احادیث میں صحت پر بحث کرکے لکھا ہے، کہ صحیح احادیث میں سامع مقتدی یا غیر مقتدی کا جواب ثابت نہیں۔ اس لیے میری نظر میں أولیٰ یہ ہے، کہ اس حکمِ استحباب کو صرف قاری پر محصور رکھا جائے۔ یہ بات لکھتے ہوئے میرے سامنے ایک تو احادیث کا معیار تھا، کہ سامع کے بارے میں کوئی صحیح حدیث موجود نہیں، جب کہ ہمارے ہاں اہلِ حدیث میں یہ عمل عام ہو کر عدمِ توازن کا شکار ہو گیا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ قرآن کی عام آیت رحمت و عذاب پر تو خاموش رہتے ہیں۔ لیکن چند مخصوص صورتوں میں جواب کو سنت قرار دے دیا ہے۔ یہ مروجہ طریقہ سلف میں موجود نہ تھا۔ اس لیے میں نے یہ رواج مرجوح سمجھا۔ تیسری وجہ میرے سامنے فقہاء محدثین کا یہ اصول تھا، کہ عبادت میں اصل ’’حظر‘‘ (ممانعت) ہے۔ چنانچہ ہمارے جن بزرگوں نے سامع کو بھی قاری پر قیاس کیا ہے، انھوں نے اس مذکورہ اصول سے اس مسئلہ میں بے اعتنائی کی ہے۔

چوتھی وجہ چند احادیث ہیں، جو نماز کی حالت میں مقتدی کی خاموشی کو کم از کم احتیاطی حیثیت تو دے دیتی ہیں مثلاً حدیثلَا تَفعَلُوا اِلَّا بِفَاتِحَةِ الکِتَابِ‘"سنن أبی داؤد،بَابُ مَنْ تَرَکَ الْقِرَاءَةَ فِی صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ،رقم:۸۲۳" اور ’ وَ اِذَا قَرئَ فَأَنصِتُوا‘ وغیرہ۔ یعنی سورت فاتحہ کے علاوہ مقتدی خاموشی اختیار کرے۔ قرآن کی آیت ﴿وَ اِذَا قُرِیَٔ القُراٰنُ فَاستَمِعُوا لَهٗ وَانصِتُوا لَعَلَّکُم تُرحَمُونَ﴾ (الاعراف:۲۰۴) کا بھی یہی معنی ہے۔

پانچویں وجہ جو حقیقت میں فتویٰ میں مذکور حضرت شیخ الکل میاں صاحب کے اصول( قول و فعل) کی صحیح تعبیر ہے۔ پیغمبر تمام افراد امت کے لیے دستور العمل ہوتا ہے، جب تک حدیث مرفوع میں ہی تخصیص ثابت نہ ہو۔ وہ یہ کہ نبیﷺ کی اتباع صرف اس معنی میں جمیع افراد امت کے لیے عام ہے۔ جب فرد کی حالت بھی وہی ہو، یعنی آپ نے اگر کوئی عمل قاری کی حیثیت سے کیا ہے، تو یہ امت کے سب قاریوں کے لیے ہو گا۔ علماء اصول نے عموماً فعل اور ’’العبرۃ بعموم اللفظ‘‘ (عموم لفظ کے معتبر ہونے) کی مباحث میں اس نکتہ کی وضاحت کی ہے۔ مثلاً قرآن کی آیت ﴿وَ اِذَا قُرِیَٔ القُراٰنُ﴾(الاعراف:۲۰۴) سے کوئی شخص یہ عمومی حکم نکالے کہ نماز سے باہر ایک شخص قرآن کی تلاوت کر رہا ہو، تو اس کے قریب دوسرے تلاوت کرنے والے سب خاموش ہو جائیں، تو یہ عموم غلط ہو گا۔

ہمارا خیال ہے کہ مدیراعلیٰ موصوف بھی اس حکم کو مقتدی اور عام سامع تک نہیں سمجھتے ہوں گے۔ اس روشنی میں ہماری ترجیحی رائے پر بھی غور فرمائیں، کہ ہماری احتیاط کتنا وزن رکھتی ہے۔

اب ہم دوسرے نکتہ پر توجہ دلانا مناسب سمجھتے ہیں۔ جماعت اہلِ حدیث پاک و ہند میں حضرت شیخ الکل اور حضرت الاستاذ محدث روپڑی وغیرہ بزرگوں کی مجاہدانہ سرگرمیوں کا ثمرہے۔ ان بزرگوں کی کتاب و سنت کے احیاء اور تقلید سے اجتناب کے لیے کامیاب تحریک کے امتیازات آہستہ آہستہ پسِ پشت ڈالے جا رہے ہیں۔ ان بزرگوں نے تو ’’مذاہب اربعہ‘‘ کے مذہبی تعصب سے نجات دلائی تھی۔ لیکن ہم لوگ ان کی تقلید کے درپے ہو کر پانچواں تقلیدی مذہب اختیار کر رہے ہیں۔اور آج کل زور اس بات پر دیا جاتا ہے، کہ ہم ان بزرگوں کے ہر جزوی مسئلہ کو بھی تسلیم کریں۔ حالانکہ اہلِ حدیث کا مسلک چند فروعی مسائل کی مخصوص تعبیر نہیں ہے۔ بلکہ اہلِ حدیث کتاب و سنت کی سلفی نہج پر فہم و تعبیر کا نام ہے۔ کسی مخصوص مسئلہ میں اہلِ حدیث کی دو یا زیادہ آراء سے مسلک اہلِ حدیث پر کوئی زَد نہیں پڑتی۔ اس لیے ہم نے بھی پیش آمدہ مسئلہ میں کوئی سخت رویہ اختیار نہیں کیا تھا۔ بلکہ استحباب کے دو پہلوؤں میں سے ایک کو اولیٰ قرار دیا تھا۔ یعنی قرآنی آیات کا جواب صرف استحبابی مسئلہ ہے۔ قاری کے جواب کے حق تک تو ہم بھی مستحب سمجھتے ہیں۔ لیکن سامع کے لیے ضعف احادیث کی وجہ سے جواب کو احتیاط کے منافی سمجھتے ہیں۔ بہت سے ائمہ نے اس حکم کو مزید محدود کیا ہے۔ بعض تو اس کے لیے صرف نفل نماز کی شرط لگاتے ہیں اور بعض صرف منفرد کے لیے جائز سمجھتے ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! المغنی لابن قدامہ جلد اوّل،ص:۵۵۰، سبل السلام جلد اول، ص:۲۸۶،وغیرہ۔ (اہلِ حدیث، الاسلام ، الاعتصام)

مولانا محمد عطاء اللہ صاحب حنیف کا تبصرہ

اس سلسلے میں ہمیں دو گزارشات کرنی ہیں۔ اوّل حدیث ضعیف کے سلسلے میں ،وہ یہ کہ فاضل مضمون نگار کی حدیث ِ ضعیف کے متعلق بحث سے معلوم ہوتا ہے، کہ حدیث ضعیف مطلقاً ناقابلِ اعتبار ہے۔ لیکن یہ اطلاق محلِ نظر ہے۔ ہم موصوف کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  کے اس فیصلے کی طرف توجہ دلائیں گے، کہ انھوں نے تین شرطوں کے ساتھ مشروط کیا ہے۔ ’’تدریب الراوی‘‘ وغیرہ میں ہے:

’ ذَکَرَ شَیخُ الاِسلَامِ ثَلَاثَةَ شُرُوطٍ اَحَدُهَا: اَن یَکُونَ الضُّعفُ غَیرَ شَدِیدٍ۔ فَیَخرُجُ مِنَ الفَردِ مِنَ الکَذَّابِینَ، وَالمُتَّهِمِینَ بِالکِذبِ، وَ مَن فَحَشَ غَلَطُهُ۔ نَقَلَ العَلَائی الاتِّفَاق عَلَیهِ۔ الثَّانِی: یَندَرِجَ تَحتَ اَصلٍ مَعمُولٍ  بِهِ۔ الثَّالِثُ: اَن لَّا یَعتَقِدَ عِندَ العَمَلِ بِهِ ثُبُوتُهُ ، بَل یَعتَقِد الاِحتِیَاطَ ‘تدریب الراوی، ص:۱۹۶، طبع مدینة منورة:۱۹۵۹ء

یعنی شیخ الاسلام( حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ) نے حدیث ضعیف کے لیے تین شرطیں ذکر کی ہیں۔ (۱)ضعف شدید قسم کا نہ ہو، یعنی راوی کذاب یا متہم بالکذب اور خطائے فاحش کا مرتکب نہ ہو۔ اگر کسی روایت میں اس انداز کا راوی ہو گا، تو یہ ضعف ِ شدید ہو گا، جس کی وجہ سے روایت پایۂ اعتبار سے ساقط ہو جائے گی۔(۲) بیان کردہ روایت کی کوئی ایسی اصل (بنیاد) موجود ہو جو معمول بہ ہو(۳) عمل کرتے وقت روایت کے ثبوت کا اعتقاد نہ رکھے، بلکہ احتیاط کے طور پر اس پر عمل کو جائز سمجھے۔

تیسری شرط کا مطلب یہ ہے، کہ اگر حدیث ضعیف میں مذکور عمل کی فضیلت کی کوئی اصل صحیح بھی موجود ہو، تو ایسی ضعیف قابلِ عمل ہو سکتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ فاضل موصوف کے استاذ علامہ ناصر الدین البانی( رحمہ اللہ ) جو ضعیف احادیث کے معاملہ میں کافی متشدد بتائے جاتے ہیں، اس توجیہ سے شاید ان کو بھی انکار نہ ہو۔ جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  کا بھی رجحان اسی طرف ہے۔ فاضل تنقید نگار نے حضرت الامام کی جس عبارت کا ایک ٹکڑا نقل کیاہے۔ وہ عبارت یہ ہے۔(یعنی ایک طویل بحث کے سلسلے میں)

’ لٰکن أحَمدَ بنَ حَنبَلٍ وَغَیرَهٗ مِنَ العُلَمَائِ جَوَّزُوا اَن یُروی فِی فضائلِ الأعمَالِ مَا لَم یُعلَم أَنَّهٗ ثَابتٌ اِذَا لَم یُعلَم اَنَّهُ کَذِبَ۔ وَ ذٰلِكَ أَن العَمَلَ اِذَا عُلِمَ أَنَّهٗ مَشرُوعٌ بِدَلِیلٍ شَرعِیٍ وَ رُوِیَ فِی فَضلِهٖ حَدِیثٌ لَا یُعلَمُ أَنَّهٗ کَذِبٌ ۔ جَازَ اَن یَکُونَ الثَّوَابُ حَقًا ۔ وَ لَم یَقُل أَحَدٌ مِنَ الأَئِمَّةِ أَنّهُ یَجُوزُ أَن یَجعَلَ الشئَی وَاجِبًا، أَو مُستَحِبًّا بِحَدِیثٍ ضَعِیفٍ۔ وَ مَن قَالَ هٰذَا، فقد خَالَفَ الاِجمَاعَ وَهٰذَا کَمَا أَنَّهٗ لَا یَجُوزُ أن یُحَرَّمَ شَیئٌ اِلَّا بِدِلِیلٍ شَرعِیٍ لٰکِن اِذَا عُلِمَ تَحرِیمُهٗ، وَ رُوِیَ حَدِیثٌ فِی وَعِیدِ الفَاعِلِ لَهٗ۔ وَ لَم یُعلَم انه کذب جاز ان یرویه فیجوز ان یروی فی الترغیب و التَّرهِیبِ، مَا لم یُعلَم اَنَّهٗ کَذِبٌ اِلٰی اٰخِرِ مَا قَالَ  ‘التوسل،ص:۸۴، ۸۵

دوسری بات زیرِبحث مسئلہ کے متعلق ہے۔ سو اوّلاً ہمارے ہاں اس رواج کا، کہ مقتدی بلند آواز سے یہ ’’جوابات‘‘ دیتے ہیں، کوئی جواز معلوم نہیں ہوتا۔ ثانیاًمولانا عبدالرحمن مبارکپوری نے ’’تحفۃ الاحوذی‘‘(ص: ۲۱۵، ج:۴) میں زیرِ حدیث متعلقہ جواب آیت ’’سورہ والتین‘‘ فرمایا ہے:

’ وَالحدیث یَدُلُّ عَلٰی اَن مَن یَّقرَأُ هٰذِهِ الاٰیَاتِ یُستَحَبُّ لَهٗ، اَن یَّقُولَ تِلكَ الکَلِمَات سَوَائً کَانَ فِی الصَّلٰوةِ اَو خَارِجِهَا۔ وَ اَمَّا قَولُهَا لِلمُقتَدِی خَلفَ الاِمَامِ فَلَم اَذِنٌَ عَلٰی حَدِیثٍ یَدُلُّ عَلَیهِ ۔ ‘ اِنتَهٰی

یعنی اس حدیث سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ قاری کا﴿اَلَیسَ اللّٰهُ بِاَحکَمِ الحَاکِمِینَ﴾ (التین:۸)کے بعد ’بَلٰی وَ اَنَا عَلٰی ذَالِكَ مِنَ الشّٰهِدِینَ‘ کہنا مستحب ہے۔ وہ قاری نماز کے اندر ہو یا نہ ہو۔

لیکن امام کے پیچھے مقتدی کا کہنا جہاں تک مجھے علم ہے ، کسی حدیث میں نہیں آیا ہے۔ مولانا عبید اللہ صاحب مبارکپوری مدظلہ کا بھی فیصلہ یہی ہے:

’ وَالحَدِیثُ یَدُلُّ عَلٰی اَن مَن یَّقرَئُ هٰذِهِ الاٰیَاتِ یُستَحُبُّ لَهٗ ، اَن یَّقُولَ تِلكَ الکَلِمَاتِ سَوَائً کَانَ فِی الصَّلٰوةِ اَو خَارِجِهَا۔ وَ اَمَّا قَولُها لِلسَّامِعِ المُقتَدِی، اَو غَیر المُقتَدِی فَلَم اَقِف عَلٰی حَدِیثٍ مَرفُوعٍ صَرِیحٍ یَدُلُّ عَلٰی ذٰلِکَ ‘ الخ " مرعاۃ المفاتیح،ص:۶۸،ص:۶۲۸۔ جلد اوّل طبع المکتبۃ السلفیہ لاہور "

رہی وہ بات جو مرعاۃ میں متاخرین شافعی فقہاء سے نقل کی گئی ہے تو اس کی حیثیت نکتہ آفرینی سے زیادہ نہیں معلوم ہوتی۔ھذا ما عندنا واللہ اعلم ( ہفت روزہ الاعتصام،ص:۲۷/ دسمبر ۱۹۷۰ئ)

مولانا عطا اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ  کے تبصرے پر جوابِ تبصرہ

( مولانا حافظ ثناء اللہ خاں صاحب)

ضعیف خبر اجماع امت کی رُو سے ناقابل ِ اعتبار ہے۔ میں نے مؤقر جریدہ اہلِ حدیث لاہور مجریہ ۲۰/ اکتوبر ۱۹۷۸ء میں بعض قرآنی آیات کے جواب دینے کے مسئلہ پر قاری کے لیے اس کا استحباب صحیح حدیث سے ثابت کیا تھا اور اس کے ضمن میں سامع کے لیے وارد روایات کا ضعف بھی بیان کیا تھا۔ آخر میں اپنی ترجیحی رائے میں یہ اظہارِ خیال کیا تھا، کہ سامع کے لیے جواب نہ دینے میں احتیاط ہے۔ کیونکہ اس بارے میں احادیث ثابت نہیں ہیں۔اس فتوے کی اشاعت کے لیے مدیراعلیٰ ’’اہلِ حدیث‘‘ نے اپنی مخالفانہ رائے کے لیے یہ اصول پیش کیا تھا کہ ’’ضعیف حدیثوں سے وجوب تو نہیں استحباب بہرحال ثابت ہو جاتا ہے۔‘‘ جس پر میں نے فروعی مسائل میں اہلِ حدیث کے طرزِ فکر و عمل کی وضاحت کے لیے تبصرہ مناسب سمجھا اور اس اصولی بحث پر اپنا آرٹیکل اشاعت کے لیے مختلف رسائل کو بھیجا۔

ہفت روزہ ’’الاسلام‘‘ گوجرانوالہ نے اسے بعینہٖ شائع کیا اور ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ لاہور نے بھی عنوان تبدیل کرکے اس کی اشاعت کی۔ ہم واجب الاحترام حضرت مولانا عطاء اللہ صاحب حنیف کے انتہائی شکر گزار ہیں، کہ انھوں نے اس پر اپنی طرف سے ملاحظات بھی پیش فرمائے، اور نفسِ مسئلہ کی نہ صرف پُرزور تائید کی، بلکہ اس سلسلہ میں جماعت اہلِ حدیث کے دو مایہ ناز بزرگوں کے تائیدی کلمات بھی نقل فرمائے۔ اگر صرف فتویٰ کی تائید ہمارا مقصود ہوتی تو ہمارے لیے حضرت مولانا عطاء اللہ صاحب حنیف جیسے بزرگ کی اس مسئلہ پر حتمی رائے کافی تھی، جو ہمارے لیے موقف سے بڑھ کر تائید ہے، لیکن ہمیں یہ یقین نہیں آرہا کہ محترم موصوف اہلِ حدیث مکتبِ فکر کے امتیازی اصولی مسئلہ کے بارے میں محدثین کبار سے اختلاف رائے فرما سکتے ہیں ۔کیونکہ زیرِبحث مسئلہ کی تائید کے ساتھ ہی ہمارے اٹھائے ہوئے اصولی مسئلہ پر انھوں نے تعاقب فرمایا ہے۔ چنانچہ موصوف نے اوّلاً موضوعِ بحث کو کچھ بدل دیا ہے۔ ہمارے زیرِ نظر صرف یہ جائزہ لینا تھا ( کہ ضعیف حدیث سے وجوب تو نہیں استحباب بہرحال ثابت ہوتا ہے) اہلِ حدیث کا اندازِ فکر ہے یا نہیں! لیکن محترم موصوف اس موضوع کو بدل کر فرماتے ہیں: کہ راقم (ثناء اللہ) کے نزدیک حدیثِ ضعیف مطلقاً ناقابلِ اعتبار ہے۔ لیکن مولانا موصوف کی رائے میں یہ اطلاق محل نظر ہے۔ چونکہ ہم پاکستان میں محدثین کا طرزِ عمل و فکر کا انحطاط دیکھ رہے ہیں۔ اس لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ اس کی وضاحت مناسب طور پر ہو جائے لہٰذا ہم پہلے یہ واضح کریں گے کہ محققین ائمہ حدیث شرعی احکام کے ثبوت میں ضعیفِ حدیث کا اعتبار نہیں کرتے۔

چونکہ استحباب پانچ شرعی تکلیفی احکام میں سے ایک حکم ہے۔ لہٰذا یہ کسی ضعیف خبر سے ثابت نہیں ہوتا۔ پھر یہ بتائیں گے کہ جن ائمہ حدیث نے ضعیف حدیث کی روایت یا اس پر عمل کے لیے چند شروط لگائی ہیں، ان کا اصل مقصد اور ما حصل کیا ہے اور ہم کس طرح آج انحطاطِ علمی کے دَور میں ان شروط کا اہتمام نہ رکھ سکنے کی وجہ سے حدیث کے سلسلہ میں نہ صرف غث و سمین کی تمیز ختم ہو گئی ہے۔ بلکہ لوگ ہر طرح کی ضعیف خبر پر عمل سے بڑھ کر اسے عقیدہ میں بھی قابلِ استدلال ٹھہراتے ہیں۔

اب ہم پہلے نکتہ کو لیتے ہیں، کہ حدیث ِ ضعیف سے کوئی حکم شرعی تکلیف(وجوب، استحباب، اباحت، کراہت ، حرمت) ثابت نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں ہم جہابذہ محدثین کے بعض اقوال اپنے پہلے تبصرہ میں پیش کر چکے ہیں۔ دیگر بے شمار تائیدات اور وضاحتوں سے علم حدیث کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔ہم ان شاء اللہ کسی دوسری فرصت میں وہ تفصیلاً عرض کریں گے۔ فی الحال اس نکتہ پر امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  سے محدثین کا جو اجماع ہم نے نقل کیا تھا، اُس کے متعلق وضاحت کرنا کافی ہو گا ۔کیونکہ محترم مولانا عطا اللہ صاحب حنیف نے غلطی سے یہی عبارت ضعیف حدیث کے قابلِ اعتبار ہونے کے لیے پیش کردی ہے، اور اس عبارت کا کچھ زیادہ حصہ نقل فرمایا ہے، کہ شاید ضعیف حدیث سے استحباب کے لیے گنجائش نکل سکے۔ لیکن اصل رائے جس سے ضعیف حدیث کے ناقابلِ اعتبار ہونے کا حتمی فیصلہ ہوتا ہے، وہ چھوڑ دی ہے۔ لہٰذا اب ہم عبارت کو وہاں سے شروع کرتے ہیں، عبارت یوں ہے:

’ وَ لَا یَجُوزُ اَن یُّعتَمَدَ فِی الشَّرِیعَةِ عَلَی الاَحَادِیث الضَّعِیفَةِ الَّتِی لَیسَت صَحِیحَةً، وَ لَا حَسَنَةً، لٰکِن اَحمَدُ بنَ حَنبَلٍ رَحَمِهُ اللّٰهُ، وَ غَیرَهٗ مِنَ العُلَمَاءِ  ‘ …الخ " التوسل،ص:۸۴،۸۵

مولانا محترم نے ترجمہ نہیں دیا۔ لہٰذا ہم تفہیم کے لیے عبارت مکمل طور پر نقل کیے دیتے ہیں ،تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ محدثین کا اتفاق اور اجماع کیا ہے اور اختلافی نکتہ کیا ہے ؟

’’شریعت میں صحیح اور حسن احادیث کے علاوہ ضعیف پر اعتماد جائز نہیں، لیکن احمد بن حنبل رحمہ اللہ  وغیرہ بعض علماء نے اعمال کی فضیلت کے ذکر میں بعض ایسی روایات کے صرف نقل کی اجازت دی ہے ، جن کے صحت کے درجہ تک پہنچنے کا علم نہیں ہو سکا ، بشرطیکہ ان کا جھوٹ بھی نامعلوم ہو، وجہ یہ ہے کہ جب اصل عمل تو صحیح دلائل سے مشروع ہو اور اس مشروع عمل کی فضیلت کے بارے میں ایسی حدیث(خفیف، ضعیف) ذکر کردی گئی، جس کا جھوٹ ہونا معلوم نہیں تو(نفس عمل) مشروع ہونے کی بناء پر ثواب تو درست ہے ( البتہ ضعیف حدیث سے ثواب کی کیفیت یا کمیت کا تعلق ہی باقی رہ جائے گا، جو اسرائیلیات کے درجہ کی بات ہو گی۔ ظاہر ہے کہ جب اسرائیلی روایات شرعِ محمدی کے خلاف نہ ہوں، تو وعظ و نصیحت میں ان کا ذکر جائز ہے۔ لیکن مسائل میں ان کا کسی درجہ اعتبار نہیں) فرماتے ہیں:کہ کوئی امام (بشمول احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ) یہ نہیں کہتا کہ ضعیف احادیث کا اعتبار کرکے کوئی بات واجب یا مستحب قرار دینی جائزہے اور جو شخص (ضعیف حدیث کے کسی درجہ اعتبار کی) یہ بات کرتا ہے ، وہ اجماعِ امت کی مخالفت کرتا ہے (خطوط و حدانی میں مذکور باتیں بھی ابن تیمیہ رحمہ اللہ  کی اگلی عبارت کا مفہوم ہیں)

متذکرہ بالا عبارت سے حسبِ ذیل باتیں حاصل ہوتی ہیں۔

۱۔         صحیح اور حسن حدیث کے علاوہ ضعیف احادیث پر اعتبار جائز نہیں۔

۲۔        پوری امت اس بات پر اجماع کر چکی ہے، کہ ضعیف حدیث سے وجوب یا استحباب پر استدلال جائز نہیں، اور ائمہ سے اس کا کوئی بھی قائل نہیں۔

۳۔        محدثین کے نزدیک معرض استدلال اور روایت میں ضعیف احادیث کا اعتبار نہیں لیکن احمد بن حنبل رحمہ اللہ  وغیرہ بعض علماء چند شروط سے فضائلِ اعمال میں ان کی صرف روایت جائز سمجھتے ہیں۔

لیکن روایتِ حدیث کے بارے میں بھی محدثین کا مسلک صحیح مسلم کے ’’مقدمہ‘‘ سے ملاحظہ فرمائیے۔ حافط ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ شرح ترمذی(ق:۳/۱۱۳) میں فرماتے ہیں:

’ وَ ظَاهِرُ مَا ذَکَرَهُ مُسلِمٌ (یَعنِی الصَّحِیح) یَقتَضِی اَنَّهٗ لَا تُروٰی اَحَادِیث التَّرغِیب اِلَّا عَمَّن تُروٰی عَنهُ الاَحکَامُ۔‘

امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ کے مقدمہ میں ظاہراً یہ مسلک بیان کیا ہے، کہ ترغیب وترہیب (فضائلِ اعمال) میں بھی صرف وہ احادیث روایت کی جائیں جو احکام میں روایت کی جاتی ہیں۔ یعنی محدثین کا اختلاف ضعیف حدیث کی صرف روایت میں ہے۔ اس کے اعتبار نہ کرنے پر سب متفق ہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ  وغیرہ کا بعض اعمال میں تساہل روایت کی حد تک ہے۔

غور فرمائیے! اس دَور میں جب کہ احادیث کی تدوین مکمل نہیں ہوئی تھی۔ اگر احمد بن حنبل رحمہ اللہ  وغیرہ بعض شرائط کے تحت ضعیف احادیث کی روایت بھی روانہ رکھتے، تو آج ہم بہت سی ایسی ضعیف روایات سے محروم رہ جاتے جو شواہد اور توابع کی بناء پر مفید ہوتیں۔ خصوصاً جب کہ حدیثِ حسن بھی اس دَور میں ضعیف کی قسم شمار ہوتی تھی، حالانکہ حسن قابلِ اعتماد ہے ۔یہ وضاحت ہم پہلے تبصرہ میں بھی کر چکے ہیں۔

محدثین کا اختلاف بیان کرنے کے ساتھ مناسب ہو گا کہ یہ بھی بیان کردیا جائے کہ ضعیف سے استحباب پر استدلال کن لوگوں کا مسلک ہے اور اس بدعت کی ایجاد کا باعث کیا ہے ؟

ہم پہلے ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے یہ نقل کر چکے ہیں، کہ پوری امت کا ضعیف حدیث کے ناقزبلِ اعتبار ہونے پر اجماع ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے، کہ اہل الحدیث کے علاوہ اہل الرائے بھی ضعیف حدیث کو ناقابلِ اعتبار سمجھتے ہیں، لیکن دورِ تقلید و انحطاط میں جب مسلک کو ضعیف احادیث سے تائید دینے کی حِزبی صورتیں پیش آئیں، تو متعصبین نے بعض اصول ایجاد کیے جن میں سے ایک یہ تھا، کہ ضعیف حدیث کے مطابق ان کے امام کا عمل مل جائے تو ایسی حدیث قابلِ عمل سمجھی جائے گی۔ پھر جب اس اصول کا استعمال معرضِ استدلال میں ہوا تو اُس نے یہ شکل اختیار کی کہ ضعیف حدیث سے استحباب ثابت ہو جاتا ہے ۔ یہ دونوں باتیں بعض متاخرین اہل الرائے کی کتابوں میں ملتی ہیں۔ اگرچہ ان کی تائید کے لیے انھوں نے متقدمین اہل الرائے یا بعض محدثین سے حسبِ منشاء استنباطات کی کوشش کی ہے، لیکن احمد بن حنبل رحمہ اللہ  وغیرہ کے مسلک کی وضاحت ہم کر چکے ہیں۔

اب ہم بعض محدثین کی ضعیف احادیث کی روایت اور شرائط پر گزارشات پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں حضرت مولانا عطاء اللہ صاحب حنیف نے ’’تدریب الراوی‘‘ کے حوالہ سے چند شروط کا ذکر کیا ہے۔ یہ شروط اگرچہ طالبانِ حدیث کے ہاں معروف ہیں، لیکن ان شروط سے ذہول بہت عام ہو چکا ہے ۔ میں شیخ الاسلام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  کے کلام اور اس کے مفہوم کے لیے، اُن کے شاگردِ خاص حافظ سخاوی  رحمہ اللہ  کی کتاب ’’ القول البدیع فی الصلوٰۃ علی الحبیب الشفیع‘‘ ،ص:۲۵۸ طبع مدینہ منورہ، کے حوالہ سے نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں:

’ وَ قَد سَمِعتُ شَیخَنَا مِرَارًا۔ یَّقُولُ: وَ کَتَبهُ لِی بِخَطٍّ : اَنَّ شَرَائِطَ العَمَلِ بِالضَّعِیفِ ثَلَاثَةٌ : اَلاَوَّلُ متفق عََلَیهِ، اَن یَّکُون الضَّعفُ غَیرَ شدیدٍ فَیَخرُجُ مِنَ الفَردِ مِنَ الکَذَّابِینَ، وَالمُتَّهَمِینَ بِالکِذبِ ، وَ فُحش غَلَط۔ الثَّانی اَن یَّکُونَ مُندرجا تحت اصل عام فَیَخرُجُ مَا یَختَرِعُ بِحَیثُ لَا یَکُونُ لَهٗ أَصلٌ صَحِیحًا۔ الثالث: ان لا یُعتَقَدَ عِندَ العَمَلِ بِهٖ ثُبُوتُهُ لِئَلَّا یُنسَبَ إِلَی النَّبِیِّ ﷺ مَا لَم یَقُله ۔‘

’’ہم نے اپنے استاذ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  سے کئی بار سنا، اور انھوں نے مجھے اپنے ہاتھ سے لکھ کر دیا، کہ ضعیف حدیث پر عمل کے لیے تین شرطیں ہیں۔ پہلی جس پر اتفاق ہے، یہ ہے کہ ضعف شدید نہ ہو ، تاکہ جھوٹوں اور جھوٹ کے ساتھ متہم، اور جن سے روایت ِ حدیث میں بڑی غلطیاں ہوئیں، سے احتراز ہو جائے۔ دوسری یہ ہے، کہ وہ حدیث ایک عام اصل کے تحت ہو، تاکہ جس حدیث کا کوئی اصل صحیح ثابت نہ ہو۔ اس سے بچا جا سکے۔ تیسری شرط یہ ہے، کہ اس حدیث پر عمل کرتے وقت اس کے سنت ہونے کا عقیدہ نہ ہو۔ کیونکہ اس طرح رسول اللہﷺ کی طرف وہ بات منسوب ہو جائے گی ،جو آپﷺ نے نہیں فرمائی۔‘‘

ان شرائط کی علیحدہ علیحدہ تشریح بھی پیش خدمت ہے۔ پہلی شرط کا معنی یہ ہے، کہ ضعیف حدیث پر عمل کے لیے حدیث کی حالت کی واقفیت ضروری ہے ،تاکہ شدید ضعف سے بچا جا سکے۔ اس شرط کو پیشِ نظر رکھ کر غور فرمائیے! کہ ہمارے ہاں آج وہ لوگ کتنی تعداد میں ہیں، جو احادیث کی صحت کے معیار کو سامنے رکھ کر گفتگو کر سکیں۔(ساتویں صدی ہجری کے امامِ حدیث حافظ ابن الصلاح اس فن میں لوگوں کی کمزوری دیکھ کر تو یہ رائے رکھتے ہیں کہ اب کسی حدیث پر نئے سِرے سے صحت اور ضُعف کی تحقیق مشکل ہے۔ اس لیے ہمیں متقدمین ِ حدیث کی تصحیح و تضعیف پر اکتفاء کرنا چاہیے۔ یہاں سے کسی کو تقلید کا وہم نہ پڑے۔ کیونکہ واقعات کی تحقیق اور ان کی صحت و ضُعف قریبی دور میں ممکن ہوتا ہے۔ لمبا عرصہ گزرنے  کے بعد کسی واقعہ کی مستقل برأسہٖ(براہِ راست) تحقیق بڑی مشکل ہوتی ہے۔ نیز تقلید کا تعلق درایت ِفقہی سے ہے روایت سے نہیں ہے۔ جیسا کہ علمائے امت نے وضاحت کی ہے۔)

خصوصاً احوالِ رواۃ کے سلسلہ میں جب مختلف ائمہ کی طرف سے جرح و تعدیل کا اختلاف ہوتاہے، تو اس میں ترجیح دینا کتنا مشکل امر ہے۔ کجا یہ کہ راوی کی عدالت اور ضبط کی باریکیوں کو سامنے رکھ کر معیارِ حدیث کے متعلق کوئی پختہ رائے قائم کی جائے۔ ہم یہ نہیں کہتے، کہ یہ کام ناممکن ہے۔ لیکن یہ بات ماننی پڑے گی، کہ اس معیار کا فیصلہ کر سکنے والے بہت کم لوگ ہوں گے۔ نتیجتاً ضُعف شدید اور ضعفِ خفیف کا امتیاز مٹ جائے گا اور بیشتر دفعہ ضعفِ شدید نظر انداز کردیا جائے گا۔

دوسری شرط کا معنی یہ ہے، کہ ضعیف حدیث میں مذکور مسئلہ کا اصل صحیح حدیث سے ثابت ہو۔ مثلاً کوئی عمل اصلاً تو صحیح حدیث سے مشروع ہے۔ لیکن اس پر ثواب کا ذکر ضعیف حدیث میں آیا ہو۔ غور فرمائیے! کہ بات عمل کی ہو رہی تھی اور عمل صحیح حدیث سے مشروع ہے۔ حالانکہ ثواب کا تعلق انسان سے نہیں، وہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ضعیف احادیث پر عمل سے کیا فرق پڑا ؟ اصل عمل توصحیح حدیث پر ہے۔ ضعیف پر نہیں۔

تیسری شرط کا مطلب یہ ہے، کہ ضعفِ خفیف کے باوجود اس مسئلہ پر عمل کرتے وقت اس کے شرعی ہونے کا عقیدہ نہ رکھے، کیونکہ شرع کے ثبوت کے لیے رسول اللہﷺ سے نقلِ صحیح اور ثبوت ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ بالا شرائط سے نتیجہ یہ نکلتا ہے، کہ صحیح حدیث کے علاوہ ضعیف پر عمل جائز نہیں۔ البتہ مخالف جانب کے لحاظ سے ایسا ممکن ہو گا‘‘ کہ بعض ان ضعف والی احادیث پر جن میں ظاہراً ثواب کا ذکر ہے۔ لیکن مسئلہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ ضعیف احادیث پر عمل کا وہم پڑے گا۔ حالانکہ وہاں اصل عمل صحیح حدیث پر ہو گا۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی جو عبارت پہلے گزر چکی ہے جس کے متعلق ہم نے وعدہ کیا تھا، کہ اس کی وضاحت ہم شروط کی بحث میں کریں گے ۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ  وہاں ایسی شروط کا لحاظ رکھ کر امام احمد رحمہ اللہ  کی رائے کی وضاحت کر رہے ہیں۔ لیکن ابن تیمیہ رحمہ اللہ  کی رائے میں امام کے نزدیک ایسی شرائط کا تعلق روایت ِ حدیث سے ہے عملِ حدیث سے نہیں۔ اس لیے روایتِ حدیث کی صورت میں ان شرائط کا لحاظ یا صرف صحیح حدیث پر عمل کی رائے رکھنا ایک ہی معنی رکھتا ہے۔

ہمارا دل چاہتا ہے، کہ محدثین کا طریق ِ روایت اور روایت میں صحت و ضعف کے اعتبار کے لحاظ سے ان کے عمل پر بحث کریں اور یہ بتائیں کہ وہ کسی نہ کسی انداز میں روایت کرتے وقت بھی صحت اور ضعف کی نشاندہی ضروری سمجھتے تھے۔ لیکن اس کے لیے ایک مستقل مضمون کی ضرورت ہے ۔ اس لیے ہم اس نکتہ کو چھوڑے دیتے ہیں۔ ہم اپنی گفتگو کو ختم کرنے سے پہلے اپنے استاذ شیخ ناصر الدین البانی، جن کے بارے میں حضرت مولانا عطا اللہ صاحب کو یہ غلط فہمی ہو گئی کہ وہ شروط بالا کی اس توجیہ سے اختلاف نہیں کریں گے کہ ضعیف حدیث قابلِ عمل ہو سکتی ہے ، کے مسلک کی وضاحت ان کے کلام سے کیے دیتے ہیں۔ چنانچہ استاذِ محترم کی کلام بلفظہٖ ملاحظہ فرمائیے:

’ و جُملةُ القول إِنَّنَا نَنصَحُ إِخوَانَنَا المُسلِمِینَ فِی مَشَارِقِ الأَرضِ، وَ مَغَارِبِهَا أن یَّدعُوا العَمَلَ بِالأَحَادِیثِ الضَّعِیفَةِ مُطلَقًا۔ وَ أَن یُوَجَّهُوا هِمَّتَهُم إِلَی العَمَلِ بِمَا ثَبَتَ مِنهَا عَنِ النَّبِیِّ ﷺ ۔ فَفِیهَا مَا یُغنِی عَنِ الضَّعِیفَةِ۔ وَ فِی ذٰلِكَ مُنجَاةٌ مِنَ الوُقُوعِ فِی الکَذِبِ عَلٰی رَسُولِ اللّٰهِ (ﷺ)، لِأَنَّنَا نَعرِفُ بِالتَّجرُبَةِ أَنَّ الَّذِینَ یُخَالِفُونَ فِی هٰذَا ، قَد وَقَعُوا فِی مَا ذَکَرنَا مِنَ الکَذِبِ ، لِأَنَّهُم یَعمَلُونَ بِکُلِّ مَا هَبَّ وَ دَبَّ مِنَ الحَدِیثِ ۔ وَ قَد اُشَارَ (صَلَّی اللّٰهُ عَلَیهِ وَ سَلَّمَ) إِلٰی هٰذَا بِقَولِهٖ: کَفٰی بِالمَرئِ کَذِبًا أَن یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ ۔ رَوَاه مسلم فی مقدمة صحیحهٖ ۔ وَ عَلَیهِ أَقُولُ: کَفٰی بِالمَرئِ ضَلَالًا أن یَعمَلَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ ۔‘

ہم مشرق و مغرب میں اپنے مسلمان بھائیوں کو نصیحت کرتے ہیں، کہ وہ ضعیف احادیث پر عمل کو کلی طور پر ترک کردیں اور اپنی ہمتوں کو صرف انہی احادیث پر مرکوز کردیں، جو نبی علیہ السلام  سے ثابت ہیں۔ ان میں وہ چیز موجود ہے جو ضعیف احادیث سے انسانوں کے لیے کافی ہو اور اس میں نجات ہو۔ چہ جائیکہ انسان رسول اللہﷺ پر جھوٹ کا ارتکاب کر بیٹھے، کیونکہ ہم تجربہ کی بناء پر جانتے ہیں کہ جو لوگ اس میں مخالفت کرتے ہیں، وہ کذب میں واقع ہوئے ہیں، کیونکہ وہ ہر قسم کی غث و سمین پر عمل کے عادی ہیں۔ رسول اللہﷺ اسی طرف اشارہ فرماتے ہیں، کہ انسان کے لیے یہی جھوٹ کافی ہے، کہ وہ ہر سنی بات بیان کردے اور میں کہتا ہوں۔ یہی گمراہی کافی ہے، کہ آدمی ہرسُنی بات پر عمل کرے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے ، کہ محققین علمائے امت اس بات پر متفق ہیں، کہ شریعت اور اس کی جزئیات خواہ وہ عملی ہوں یا فضائلِ اعمال ان کا اعتبار اسی صورت میں ہو گا جب وہ رسول اللہﷺ سے بہ نقلِ صحیح ثابت ہوں۔ اگر کوئی چیز آپﷺ سے ثابت نہ ہو یا اس کی نسبت آپﷺ کی طرف ضعیف ہو، تو اسے مشروع نہیں سمجھا جائے گا۔ کیونکہ یہ وعید بالفاظِ تواتر ثابت ہے: ’مَن کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا فَلیَتَبَوَّأ مَقعَدَہٗ مِنَ النَّارِ‘"صحیح البخاری،بَابُ إِثْمِ مَنْ کَذَبَ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ،رقم:۱۰۷" یعنی جو شخص رسول اللہﷺ پر قصداً جھوٹ بولے۔ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔ آپﷺ پر جھوٹ کی ایک شکل یہ ہے، کہ کسی بات کے بارے میں آپﷺ کی نسبت اعتماد نہ ہو، کہ وہ آپﷺ ہی کا قول و فعل اور تقریر ہے اور وہ یقینی صیغوں سے آپﷺ کی طرف نسبت کی جائے۔

ضعیف حدیث کے بارے میں کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ رسول اللہﷺکی سنت ہے۔ لہٰذا اس کی اتباع کی صورت میں ظن مرجوح پر عمل لازم آئے گا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مذمت فرمائی ہے: ﴿اِن یَّتَّبِعُونَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنَّ الظَّنَ لَا یُغنِی مِنَ الحَقِّ شَیئًا﴾(النجم:۲۸)  (و اخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:444

محدث فتویٰ

تبصرے