السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک مسئلہ آپ کی خدمت میں ارسال کر رہا ہوں وضاحت فرما کر جواب سے نوازیں۔وہ یہ ہے کہ ہم ’’سورۃ الاعلیٰ‘‘ کی پہلی آیت یا دیگر ایسی سورتیں جن میں سوالیہ قسم کی آیات ہیں مثلاً سورۃ ’’غاشیہ‘‘ اور ’’والتین‘‘ کے آخر میں، جو جوابی کلمات کہتے ہیں کیا یہ حضور علیہ السلام سے بحالتِ نماز ثابت ہیں یا نہیں یا آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا ہے ؟ وضاحت فرمائیں۔ فقط والسلام
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
’’سنن ابی داؤد‘‘ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :’
أَنَّ النَّبِیَّﷺ کَانَ اِذَا قَرَأَ ﴿سَبَّحِ اسمَ رَبِّكَ الاَعلٰی﴾ قَالَ: سُبحَانَ رَبِّیَ الاَعلٰی‘سنن أبی داؤد،بَابُ الدُّعَاء ِ فِی الصَّلَاةِ،رقم:۸۸۳
اس حدیث میں کلمہ’’اِذَا قَرَأَ ‘‘ عام ہے۔ اس کے عموم میں حالت ِ نماز وغیرہ سب داخل ہیں، اسی طرح اپنے عموم کے اعتبار سے یہ روایت فرضی اور نفلی سب نمازوں کو شامل ہے۔ اس کی تائید صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے افعال سے بھی ہوتی ہے۔
چنانچہ ’’سنن کبریٰ بیہقی‘‘ میں ہے:’
اِنَّهٗ قَرَأَ فِی الصُّبحِ بِسَبِّحِ اسمَ رَبِّكَ الاَعلٰی فَقَالَ: سُبحَانَ رَبِّیَ الاَعلٰی‘"سنن الکبرٰی للبیهقی،بَابُ الْوُقُوفِ عِنْدَ آیَةِ الرَّحْمَةِ وَآیَةِ الْعَذَابِ وَآیَةِ التَّسْبِیحِ،رقم:۳۶۹۴"
یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے صبح کی نماز میں آیت ﴿سَبِّحِ اسمَ رَبِّكَ الاَعلٰی﴾: پڑھی،اور پھر ’’سُبحَانَ رَبِّیَ الأَعلٰی‘‘ کہا۔
سعید بن جبیر رحمہ اللہ کا بیان ہے ، کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو سنا ﴿سَبِّحِ اسمَ رَبِّكَ الاَعلٰی﴾ پڑھا، پھر ’’سبحَانَ رَبِّیَ الاَعلٰی‘‘ کہا۔ اس کی مثل حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے، کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے مأثور ہے کہ
’ اِنَّهٗ قَرَأَ سَبِّحِ اسمَ رَبِّكَ الاَعلٰی، فَقَالَ: سُبحَانَ رَبِّیَ الاَعلٰی وَهُوَ فِی الصَّلٰوةِ۔ فَقِیلَ لَهٗ : اَتَزِیدُ فِی القُراٰنِ ؟ فَقَالَ :لَا اِنَّمَا اَمَرَنَا بِشَیئٍ فَعَلتُهٗ ‘
حدیث مذکور میں عزیزی نے صحت کا حکم لگایا ہے ابوداؤد میں ہے:
خُولِفَ ابنُ وَکِیع فِی هٰذَا الحَدِیثِ رَوَاهُ اَبُو وَکِیع،وَ شُعبَةُ، عَن أَبِی اِسحَاق،عَن سَعِیدِ بنِ جُبَیرٍ،عَنِ ابنِ عَبَّاسٍ مَرفُوعًا۔
اسی طرح سورۃ ’’والتین‘‘ اور ’’ لَا أُقسِمُ‘‘ اور ’’وَالمُرسِلٰت‘‘ کے بارے میں لفظ ’’مَن قَرَأَ ‘‘ وارد ہوا ہے جو عموم کا متقاضی ہے۔ حالت ِ نماز و غیر حالتِ نماز کوشامل ہے۔ اسی بناء پر صاحب ’’مشکوٰۃ‘‘ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما مذکور اور اس حدیث کو’’باب القراء ۃ والصلوٰۃ‘‘ کے تحت لائے ہیں، لیکن حدیث ہذا کی سند میں راوی مجہول ہے۔ ’’مرعاۃ المصابیح‘‘ ص:۶۲۸ (جلد اوّل) میں ہے:
’ فِی إِسنَادِهٖ رَجُلٌ مَجهُولٌ فَالحَدِیثُ ضَعِیفٌ ۔‘
نیز ’’فتح القدیر للشوکانی‘‘ (ص:۳۴۳، جزء ۵ )میں ہے۔ ’’وَ فِی اِسنَادِهٖ رَجُلٌ مَجهُولٌ‘‘اور ابن کثیر جزئ:۴ ،ص:۱۵۸پر ہے:
’ وَ قَد رَوَاهُ شُعبة عَن اسماعِیل بن أمیة قال قُلتُ: مَن حَدَّثَكَ ؟ قَالَ : رَجُلٌ صَدَقَ عَن اَبِی هُرَیرَةَ۔‘
ترمذی میں ہے:
’ اِنَّمَا یُروٰی بِهٰذَا الاِسناد، عن هذا الاعرابی ، عَن ابی هریرة۔ و لا یسمٰی ‘
’’ابوداود‘‘ میں ہے : ’هٰذا الاعرابی لا یعرف ففی الاسناد جهالة۔‘
اس روایت میں لفظ ’’فَلیَقُل‘‘ استعمال ہوا ہے اور ’’احکام القرآن لابن العربی‘‘ میں ہے: ’’وَ فِی رِوَایَةٍ غَیرَهٗ اِذَا قَرءَ اَو سَمِعَ‘‘ جو مقتدی کو بھی شامل ہے لیکن ساتھ ہی فرماتے ہیں:’’وَ ھٰذَا اَخبَارٌ ضَعِیفَۃٌ‘‘ ملاحظہ ہو!۱۹۴۱ جزئ:۴۔ بہرصورت یہ حدیث ضعیف ہے، کما عرفت۔
باقی رہا معاملہ ’’سورۃ غاشیہ‘‘ کا، تو اس بارے میں مجھے کوئی نص نہیں معلوم ۔ ہو سکتا ہے کہ آپ نے اس سورت کے اختتام پر اَللّٰهُمَّ حَاسِبنِی پڑھا ہو۔ البتہ ’’مشکوٰۃ‘‘ (جزء ثانی، ص:۴۱۷)پر ایک روایت بحوالہ ’’مسند احمد‘‘ بایں الفاظ موجود ہے:
’ یَقُولُ فِی بَعضِ صَلٰوتِهٖ: اَللّٰهُمَّ حَاسِبنِی حِسَابًا یَّسِیرًا ۔‘ مسند احمد،رقم:۲۴۲۱۵، صحیح ابن خزیمة،رقم:۸۴۹،المستدرک علی الصحیحین للحاکم، رقم:۱۹۰
’’تفسیر ابن کثیر‘‘ جز:۴، ص:۴۸۹، پر ہے ’’صَحِیحٌ عَلٰی شَرطِ مُسلِمٍ‘‘ یعنی یہ حدیث امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے، لیکن اس میں ’’سورۂ غاشیہ‘‘ کا تعین کرنا امر مشکل ہے۔ حاصل خلاصہ یہ ہے، کہ ’’سورۃ الاعلیٰ‘‘ میں قاری کے لیے جواب کی رخصت ہے ۔ اس بیان میں وارد باقی احادیث قریباً ضعیف اور ناقابلِ حجت ہیں، باقی رہا معاملہ سامع مقتدی یا غیر مقتدی کے جواب کا، تو یہ کسی مرفوع حدیث سے ثابت نہیں ہو سکا۔
نیز قاری کے لیے مزید گنجائش بھی ثابت ہے۔ چنانچہ صحیح مسلم ،مسنداحمد اور سنن نسائی میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے:
’اِذَا مَرَّ بِآیَة فِیهَا تَسبِیحٌ۔ سَبَّحَ وَ اِذَا مَرَّ بِسَوَالٍ ،سَاَلَ وَ اِذَا مَرَّ بِتَعَوُّذٍ ،تَعَوَّذَ‘"مسند احمد،رقم:۲۳۳۶۷،صحیح مسلم،بَابُ اسْتِحْبَابِ تَطْوِیلِ الْقِرَاءَةِ فِی صَلَاةِ اللَّیْلِ، رقم: ۷۷۲،سنن النسائی،بَابُ تَسْوِیَةِ الْقِیَامِ وَالرُّکُوعِ، …الخ ،رقم:۱۶۶۴
یعنی ’’نبیﷺ کا مرور(دورانِ تلاوت گزر) تسبیح کی آیت سے ہوتا، تو آپﷺ تسبیح پڑھتے اور جب سوال سے ہوتا سوال کرتے اور جب تعوذ سے گزر ہوتا، تو تعوذ پڑھتے۔‘‘
نیز ’’تلخیص الحبیر‘‘ طبع انصاری کے ،ص:۹۰ میں ہے:
’ وَ یَستحبُّ للقاری فی الصلوٰة و خَارجها أن یَسأَلَ الرَّحمَةَ۔ اِذَا مَرَّ بِآیَةٍ الرَّحمَةِ۔ وَ اَن یَتَعَوَّذَ۔ اِذَا مَرَّ بِآیَةِ العَذَابِ۔‘
’’سنن ابی داؤد‘‘ بمع ’’عون المعبود‘‘ جزء اول،ص:۳۴۱،پر امام ابوداؤد نے امام احمد سے نقل کیا ہے: ’’یُعجِبُنِی فِی الفَرِیضَةِ اَن یَّدعُوَ بِمَا فِی القُراٰنِ‘‘ صاحبِ ’’عون المعبود‘‘ اس جملہ کی تشریحات کرتے ہوئے رقمطراز ہے:
’ فَالاِمَامُ اَحمَدُ یَخُصُّ هٰذَا فِی النوافل‘ بل یَستَحِبُّهُ فِی الفَرَائِضِ اَیضًا۔ وَ بِه قَالَ الشَّافِعِیُّ : ‘
لیکن مسنداحمد کی روایت میں ساتھ یہ قید بھی موجود ہے : ’ یَقرَأَهٗ فِی صَلٰوةٍ لَیسَت بِفَرِیضَةٍ‘ اور بعض روایات میں صلوٰۃ اللیل کی صراحت ہے۔ نیل الأوطار،ص:۲۳۷، جزئ:۳، میں ہے:
’ وَالظَّاهِرُ استِحبَابُ هٰذِهِ الاُمُورِ لِکُلِّ قَارِیئٍ مِن غَیرِ فَرقٍ بَینَ المُصَلِّی، وَ غَیرِهٖ، وَ بَینَ الإِِمَام، وَالمنفرد، والمأمُومِ ۔ وَ اِلٰی ذٰلِكَ ذَهَبَت الشافِعِیَّة۔‘
لیکن میری نظر میں اولیٰ یہ ہے کہ اس حکم کو صرف قاری پر محصور کیا جائے ۔ جیسا کہ حدیث میں نص موجود ہے۔ (واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب وعلمہ اتم) (حافظ ثناء اللہ مدنی)
قارئین کرام نے محترم حافظ ثناء اللہ صاحب کا جواب اور اس کے دلائل ملاحظہ فرمائے۔ حافظ صاحب نے اپنا رُجحان یہ ظاہر کیا ہے، کہ یہ جوابی کلمات امام کہے مقتدی نہ کہے، لیکن ہمارے نزدیک اولیٰ اور أقرب الی الصواب بات وہ ہے، جو حافظ صاحب نے ’’نیل الأوطار‘‘ کے حوالہ سے پیش کی ہے۔ یعنی امام شوکانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ کلمات امام اور مقتدی دونوں کے لیے مستحب ہیں۔
ہم مسئلہ زیرِ استفتاء کی مزید وضاحت کے لیے مفتی جماعت حضرت محدث روپڑی رحمہ اللہ کی تحقیق ہدیہ قارئین پیش کرنا چاہتے ہیں۔
آپ کا علمی وتحقیقی مقام بلا نزاع مُسَلَّم ہے۔ قیامِ پاکستان سے قبل ہماری جماعت میں اساطینِ علم، شیوخ الحدیث، اربابِ تحقیق اور اصحابِ فتویٰ کثیر اور معقول تعداد میں موجود تھے۔ لیکن یہ حقیقت ہے۔ کہ پورے ہندوستان میں محدث روپڑی کے فتویٰ کو جس عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا، وہ مقام کسی دوسرے اہلِ علم کے فتویٰ کو حاصل نہ ہو سکا۔ ہمارے لیے مزید وجہِ اطمینان یہ ہے، کہ ہمیں تو ہر لحاظ سے محدث روپڑی سے نسبت ہے اور مذکورہ الصدر استفتاء کے مفتی عزیز مکرم مولانا حافظ ثناء اللہ صاحب کو بھی انھیں سے شرفِ تلمذ حاصل ہے اور وہ بھی اپنے تمام اساتذہ سے زیادہ حضرتِ مرحوم کی تحقیق کو ترجیح دیتے ہیں۔
اس سلسلہ میں ہم حضرت حافظ صاحب،محدث روپڑی رحمہ اللہ کے اپنے اخبار ’’تنظیم اہلِ حدیث‘‘ ۱۲ جمادی الاول ۱۳۸۲ھ سے اسی مضمون کا ایک سوال اور خاص اُن کے قلم سے، اس کا جواب نقل کرنا کافی سمجھتے ہیں۔
قرآنِ مجید کی جن سورتوں کے جوابات حدیث میں آگئے ہیں، وہ جس طرح امام کے لیے جائز اور مستحب ہیں، اسی طرح مقتدی کے لیے بھی جائز اور مستحب ہیں۔ بلکہ مندرجہ ذیل واقعہ سے ثابت ہوتا ہے، کہ رسول اللہﷺ کو سامعین کا جواب دینا بہت محبوب تھا۔ چنانچہ ’’مشکوٰۃ‘‘ باب القراء ۃ میں ہے:
’ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ عَلَی أَصْحَابِهِ، فَقَرَأَ عَلَیْهِمْ سُورَةَ الرَّحْمَنِ مِنْ أَوَّلِهَا إِلَی آخِرِهَا فَسَکَتُوا، فَقَالَ: لَقَدْ قَرَأْتُهَا عَلَی الجِنِّ لَیْلَةَ الجِنِّ فَکَانُوا أَحْسَنَ مَرْدُودًا مِنْکُمْ، کُنْتُ کُلَّمَا أَتَیْتُ عَلَی قَوْلِهِ ﴿فَبِأَیِّ آلاَء ِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ﴾ قَالُوا: لاَ بِشَیْء ٍ مِنْ نِعَمِكَ رَبَّنَا نُکَذِّبُ فَلَكَ الحَمْدُ ‘ (رَوَاهُ التِّرمِذِیُّ، وَ قَالَ هٰذَا حَدِیثٌ غَرِیبٌ) سنن الترمذی،بَابٌ: وَمِنْ سُورَةِ الرَّحْمَنِ،رقم:۳۲۹۱
یعنی ایک روز رسول اللہﷺ صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے اور ’’سورۃ رحمن‘‘ ساری پڑھی۔ صحابہ رضی اللہ عنہ خاموش سنتے رہے۔ بعد میں آپﷺنے فرمایا: میں نے یہ سورت جنوں پر پڑھی تھی جب بھی میں آیت ﴿فَبِاَیِّ اٰلآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴾پر پہنچتا، تو وہ نہایت اچھا جواب دیتے ہوئے کہتے :’لَا بِشَیئٍ مِّن نِعَمِكَ رَبَّنَا، نُکَذِّبُكَ، فَلَكَ الحَمدُ‘ یعنی ’’اے ہمارے رب! تیری کوئی ایسی نعمت نہیں، جن کو ہم جھٹلا سکیں۔ پس تیرے لیے حمد ہے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ کو یہ بات بہت پیاری لگتی تھی، کہ سامعین بھی جواب دیں۔ لہٰذا مقتدی کو جواب دینا چاہیے۔ یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے۔ مگر امام شافعی رحمہ اللہ نے اس سے استدلال کیا ہے، کہ سامع بھی جواب دے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے استدلال سے معلوم ہوتا ہے، کہ حدیث قابلِ عمل ہے، خاص کر فضائلِ اعمال میں۔ رہی یہ بات کہ نماز غیر نماز میں کوئی فرق ہے، یا نہیں؟ تواس کا جواب یہ ہے، کہ بظاہر کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا۔ یہ ایسا ہی سمجھ لینا چاہیے، جیسے امام کی (آمین) کے ساتھ (آمین) کہی جاتی ہے۔ کیونکہ سماع قرأت کو مخل نہیں۔ اس کا (آمین) پر قیاس صحیح ہے۔‘‘(بحوالہ فتاویٰ اہلِ حدیث ،ج:۲،ص:۱۵۴،۱۵۵)
مزید اطمینان کے لیے ہم حضرت شیخ الکل فی الکل مولانا سید نا نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ المعروف بڑے میاں صاحب رحمہ اللہ کی تحقیق پیش کرنا مناسب خیال کرتے ہیں۔ فتاویٰ نذیریہ ،جلد اوّل، ص:۴۳۰، ۴۲۳ میں ان کا اپنا فتویٰ موجود ہے۔ استفادۂ تام کے لیے ہم سوال و جواب نقل کردیتے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب