سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(515) نمازِ جمعہ میں سَبِّحِ اسْمِ رَبِّكَ الاَعْلٰی کا جواب دینا مزيد تفصيل

  • 24525
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 636

سوال

(515) نمازِ جمعہ میں سَبِّحِ اسْمِ رَبِّكَ الاَعْلٰی کا جواب دینا مزيد تفصيل

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جناب حافظ صاحب ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ ہمارے ہاں ایک مولوی صاحب ہیں۔ انھوں نے اپنے مقتدیوں کو سری نمازوں میں یعنی ظہر، عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے علاوہ قراء ت سے منع کر رکھا ہے اور وہ دلیل میں سنن النسائی کی روایت پیش کرتے ہیں، جو ان کے الفاظ میں درج ہے: ’بَابُ تَرْکِ الْقِرَآئَةِ خَلْفَ الْاِمَامِ فِیْمَا لَمْ یَجْهَر‘’’جس (نماز میں جہر نہیں کیا گیا۔ اس میں امام کے پیچھے قراء ت چھوڑ دینا ۔‘‘ ’عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ قَالَ صَلَّی النَّبِیُّ ﷺ الظُّهْرَ فَقَرَأَ رَجُلٌ خَلْفَهٗ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الاَعْلٰی‘ ’’عمران بن حصین سے روایت ہے نبی کریمﷺ نے نماز پڑھائی ظہر کی، پس پڑھا ایک شخص نے آپﷺ کے پیچھے ’سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الاَْعْلٰی‘’ فَلَمَّا صَلّٰی قَالَ مَنْ قَرَأَ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الاَعْلٰی ؟ قَالَ رَجُلٌ َنَا! قَالَ لَقَدْ عَلِمْتُ اَنَ بَعْضَکُمْ قَدْ خَالَجَنِیْهَا‘ ’’پس جب آپﷺ نماز سے فارغ ہو چکے تو فرمایا، کس نے پڑھا: ’سَبِّح اسْمَ رَبِّكَ الاَعْلٰی‘ کہا ایک آدمی نے کہ ’’ میں نے !‘‘ آپ نے فرمایا: جان لیا ہے میں نے کہ تم میں سے بعض قرآن کو میرے ساتھ خلط ملط کرتے ہیں۔ صحیح مسلم،بَابُ نَہْیِ الْمَأْمُومِ عَنْ جَہْرِہِ بِالْقِرَاء َۃِ خَلْفَ إِمَامِہِ،رقم:۳۹۸

’ عَنْ عِمْرَانَ بْنَ حُصَیْنٍ اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ صَلّٰی صَلٰوةَ الظُّهْرِ اَوِ الْعَصْرِ وَ رَجُلٌ یَقْرَأُ خَلْفَهٖ فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ اَیُّکُمْ قَرَأَ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الاَعْلٰی قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ اَنَا وَ لَم اُرِدْ بِهَا اِلَّا الْخَیْرَ ‘

’’عمران بن حصین رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ظہر یا عصر کی نماز پڑھی اور ایک شخص نے آپﷺ کے پیچھے قراء ت کی۔ پس جب آپﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا تم میں سے کس نے سبح اسم ربک الاعلیٰ پڑھی ہے ایک شخص نے قوم میں سے کہا، میں نے، اور میرا ارادہ اس سے حصولِ خیر ہی کا تھا۔ ’فَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ قَدْ عَرَفْتُ اَنَّ بَعْضَکُمْ قَدْ خَالَجَنِیْهَا ‘(نسائی، شریف مجشٰی بھوجیانی،ص:۱۸۔۱۹) سنن النسائی،بَاب تَرْکُ الْقِرَاء َۃِ خَلْفَ الْإِمَامِ فِیمَا لَمْ یَجْہَرْ فِیہِ ،رقم:۹۱۸’’پس فرمایا نبیﷺ نے ، میں نے معلوم کر لیا ہے کہ بعض تم میں سے مجھ سے قرآن میں جھگڑا ڈالنے والے ہیں۔‘‘ ’خَالَجَنِیْهَا‘کی شرح قابلِ غور اور لائق مطالعہ ہے۔

ابوداؤد شریف میں یہ روایت ایک آدھ لفظ کے ہیر پھیر سے دو سندوں سے مروی ہے۔ مسلم میں تین سندوں سے اور جزء القراء ۃ للبخاری میں کم از کم ۹ یا ۱۰ سندوں سے مروی ہے۔ لہٰذا اس کی صحت میں شک نہیں ہونا چاہیے۔ مزید توجہ طلب باتیں:

۱۔         صحابی رضی اللہ عنہ  نے پوری سورۃ الاعلیٰ بلند آواز سے پڑھی تھی یا صرف پہلی ایک آیت؟

۲۔        سورۃ الاعلیٰ بلند پڑھنے والے صحابی نے سورۃ فاتحہ کیسے پڑھی ہوگی؟

۳۔        جو صحابہ سورۃ الاعلیٰ ضروری پڑھ رہا ہے ، وہ سورۃ فاتحہ چھوڑ سکتا ہے؟

۴۔        پوری جماعت ِ صحابہ میں سے ایک نے پڑھا تھا، باقیوں نے کیا کیا تھا؟

۵۔        صحابی ننے جہراً پڑھنے کو ’لَمْ اُرِد بِهَا اِلَّا الْخَیْرَ‘ سے تعبیر کیا تھا یا قرآن کی قراء ۃ کو؟

۶۔        عالم استغراق میں آپﷺ اَحْیَاناً ایک آدھ آیت اونچی پڑھ لیا کرتے تھے۔ صحابہ کو ایسا کرنے پر کیوں ٹوکا؟

۷۔        ’خَالَجَنِیْھَا‘ نفی کے لیے فرمایا یا اثبات کے لیے؟ (انکار کے لیے یا اقرار کے لیے؟) (سائل محمد اقبال…قصور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کتب احادیث میں نبی کریمﷺ کی نماز کا جو طریقہ صریحاً منقول ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپﷺ ظہر و عصر کے فرضوں کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ کے علاوہ بھی قراء ۃ فرماتے تھے۔

بلکہ صحیح مسلم میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ  کی روایت سے مفہوم ہے کہ گاہے بگاہے آپﷺ ظہر کے فرضوں کی پچھلی دو رکعتوں میں بھی قراء ت فرماتے لیتے تھے۔صحیح بخاری میں ابوقتادہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے:

’ کَانَ النَّبِیُّ ﷺ یَقْرَأُ فِی الرَّکْعَتَیْنِ مِنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ وَ سُوْرَةٍ وَّ یُسْمِعُنَا الاٰیَةَ اَحْیَانًا‘ (جلد اوّل،ص:۱۰۵، باب القرآءة فی العصر) صحیح البخاری،بَابُ القِرَاءَةِ فِی العَصْرِ،رقم:۷۶۲

کہ نبی اکرمﷺ ظہر اور عصر کی ہر دو رکعتوں میں سورۃ الفاتحہ اور (اس کے ساتھ) سورۃ ( ملا کر) پڑھتے تھے اور کبھی کبھی ہمیں بھی کوئی آیت سناتے تھے۔‘‘

شبہ: اگر کوئی کہے کہ آپﷺ کی قراء ت تو بحیثیت امام کے تھی اور اس میں کسی کو کلام نہیں… اس وقت متنازع فیہ مسئلہ مقتدی کا ہے نہ کہ امام کا؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث ’صَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ‘"صحیح البخاری،بَابُ الأَذَانِ لِلمُسَافِرِ، إِذَا کَانُوا جَمَاعَةً، وَالإِقَامَةِ، وَکَذَلِكَ بِعَرَفَةَ وَجَمعٍ… الخ،رقم:۶۳۱" کے پیش نظر اجازتِ ھذا مقتدی کو بھی شامل ہے۔ پھر سنن ابن ماجہ کی روایت میں ماموم کے جوازِ قراء ت پر نص صریحًا موجود ہے۔ پوری روایت بسنده ملاحظہ فرمائیں:

’ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ یَحْیٰی حَدّثَنَا سَعِیْدُ بْنُ عَامِرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ مُسْهِرٍ عَنْ یَزِیْدَ الْفَقِیْرِ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ قَالَ کُنَّا نَقْرَأُ فِی الظُّهْرِ وَ الْعَصْرِ خَلْفَ الاِمَامِ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الاُوْلَیَیْنِ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ وَ سُوْرَةٍ وَّ فِی الاُخْرَیَیْنِ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ (ابن ماجه،ص:۶۱) سنن ابن ماجة،بَابُ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ،رقم:۸۴۳

’’کہ ہم ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ اور (اس کے ساتھ)سورۃ (ملا کر) پڑھتے تھے ، جب کہ آخری دو رکعتوں میں (صرف) فاتحہ الکتاب۔‘‘

باقی رہی سنن نسائی کی وہ روایت کا جس کا حوالہ مولوی صاحب مذکور دیتے ہیں ، تو امام نووی نے شرح مسلم میں اس کا جواب یوں دیا ہے کہ آپﷺ نے اس شخص کو مطلق قرائت سے نہیں روکا تھا بلکہ صرف آواز بلند کرنے سے منع فرمایا تھا… الفاظ یوں ہیں:

’ مَعْنٰی هٰذَا الْکَلَامِ الاِنْکَارُ عَلَیْهِ وَ الْاِنْکَارُ فِیْ جَهْرِهٖ اَوْ رَفْعِ صَوْتِهٖ بِحَیْثُ اَسْمَعُ غَیْرَهٗ لَا عَنْ اَصْلِ الْقِرَائَةِ بَلْ فِیْهِ اَنَّهُمْ کَانُوْا یَقْرَئُ وْنَ بِالسُّوْرَةِ فِی الصَّلٰوةِ السِّرِّیَّةِ (جلد اوّل،ص:۱۷۲)

یعنی ’’اس کلام کا مفہوم یہ ہے کہ آپﷺ نے اس کو بآوازِ بلند قراء ت سے روکا تھا، کیونکہ اس نے آواز دوسرے کو سنائی، نہ کہ اصلی قراء ت سے انکار مقصود ہے! … نفسِ حدیث میں تو یہ مسئلہ موجود ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  سِرّی نماز میں سورۃ پڑھتے تھے۔‘‘

صاحب التعلیقات السلفیۃ(بھوجیانی) نے بھی قریباً یہی بات دہرائی ہے کوئی نئی بات نہیں کہی۔ اسی بنا پر امام نووی رحمہ اللہ  نے اس روایت پر صحیح مسلم کے حاشیہ میں بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے:’بَابُ نَهْیِ الْمَأْمُوْمِ عَنْ جُهَرِهِ بِالْقِرَائَةِ خَلْفَ اِمَامِهٖ‘

یعنی ’’ماموم کے لیے امام کے پیچھے جہری قراء ت کرنا منع ہے۔‘‘ اور امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں یوں باب باندھا ہے:’ بَابُ مَنْ رَّأ القِرَائَةَ اِذَا لَمْ یَجْهَرْ‘ لہٰذا حدیثِ مذکور کے الفاظ کے پیش نظر امام نسائی کی تبویب کی بجائے ابوداؤد رحمہ اللہ  اور امام نووی رحمہ اللہ  کی تبویبیں درست اور مؤقف کے اظہار کے لیے ہیں، جب کہ امام نسائی کی تبویب سے ان لوگوں کے استدلال کی طرف اشارہ ہے جو اس حدیث سے مقتدی کے لیے قراء ۃ کے قائل نہیں۔

امام نسائی و ترمذی وغیرہ کی یہ عام عادت ہے کہ اپنی تبویب سے دوسروں کے استدلالات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ خود ان کا اپنا موقف بھی وہی ہو۔ چنانچہ حدیث ہذا کے اخیر میں امام ابواؤد رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’وَ قَالَ ابْنُ کَثِیْرٍ فِی حَدِیْثِهٖ قَالَ قُلْتُ لِقَتَادَةَ کَاَنَّهٗ کَرِهَهٗ قَالَ لَوْ کَرِهَهٗ نَهٰی عَنْهُ ‘

’’محمد ابن کثیر اپنی حدیث میں بیان فرماتے ہیں کہ شعبہ نے کہا، میں نے قتادہ سے دریافت کیا، معلوم یوں ہوتا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اس شخص کا آپﷺ کے پیچھے ’سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الاَعْلٰی ‘ پڑھنا مکروہ جانا؟ تو قتادہ نے جواب دیا، اگر آپﷺ نے اس فعل کو مکروہ جانا ہوتا تو فعلِ قراء ت سے منع فرمادیتے۔

عون المعبود میں ہے: فَدَلَّ عَلٰی عَدَمِ الْکِرَاهَةِ‘ یعنی اس حدیث سے دلیل ملتی ہے کہ امام کے پیچھے قراء ۃ کرنی مکروہ نہیں۔(جلد اوّل،ص:۳۰۷) نیز مؤطا امام مالک رحمہ اللہ  میں حضرت عبد اللہ بن عمر( رضی اللہ عنہما ) کے متعلق مذکور ہے کہ وہ سِرّی نمازوں کی چاروں رکعتوں میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ سورۃ ملایا کرتے تھے۔

امام محمد رحمہ اللہ  کی روایت میں صراحت موجود ہے کہ ان کا یہ عمل ظہر اور عصر کے فرضوں میں تھا۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: مرعاۃ المفاتیح جلد اوّل،ص:۶۰۰۔

نیز محدث شام علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ  نے اپنی کتاب ’صِفَۃُ صَلٰوۃِ النَّبِیِّﷺ‘ میں بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’وُجُوْبُ الْقِرَائَةِ فِی السِّرِّیَّةِ‘ یعنی سِرّی نماز میں قراء ت واجب ہے۔‘‘ پھر اس کے تحت تحریر فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کو سِرّی نماز میں قراء ت پر برقرار رکھا ہے۔‘‘

بایں ہمہ آپ نے ان پر صرف قراء ت میں حاصل تشویش کا انکار کیا۔ یہ اس وقت کا قصہ ہے جب کہ آپﷺ نے صحابہ کو ظہر کی نماز پڑھائی تو فرمایا: ’اَیُّکُمْ قَرَأَ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الاَعْلٰی ‘ ’’تم میں سے کس نے ’سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الاََعْلٰی‘پڑھا ہے۔‘‘ ایک آدمی نے کہا: میں نے !… اور میرا مقصود اس سے خیر کے سوا کچھ نہیں تھا۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا: مجھے احساس ہو رہا تھا کہ ایک شخص نے مجھ پر قراء ت خلط ملط کردی ہے۔" صحیح مسلم،بَابُ نَہْیِ الْمَأْمُومِ عَنْ جَہْرِہِ بِالْقِرَاء َۃِ خَلْفَ إِمَامِہِ،رقم:۳۹۸" ایک دوسری روایت جو جزء القراء ۃ للبخاری، مسند احمد اور السّراج میں بسند حسن مروی ہے، میں ہے کہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، نبی اکرمﷺ کی اقتداء میں قراء ت بآوازِ بلند کرتے تھے، تو آپﷺ نے فرمایا: ’خَلَطْتُّمْ عَلَیَّ الْقُرْاٰنَ‘ تم نے مجھ پر قرآن کو خلط ملط کردیا ہے ۔‘‘

پھر محدث موصوف صفحہ ۹۶ کے حاشیہ پر رقمطراز ہیں کہ سرّی نماز میں قراء ت خلف الامام کی مشروعیت کے قائل، قدیم قول کے مطابق امام شافعی ہیں اور امام ابوحنیفہ کے شاگرد امام محمد سے بھی ایک قول اسی کے موافق ہے۔ ملا علی قاری اور بعض حنفی شیوخ نے بھی اس مسلک کو پسد کیا ہے۔ اور یہی قول امام زہری ، مالک، ابن المبارک ، احمد بن حنبل اور محدثین کی ایک جماعت وغیرہ کا ہے۔( رحمہم اللہ تعالیٰ)

اب آپ سوالات کا جواب بالترتیب لاحظہ فرمائیں:

۱۔          لفظ ’خَالَجَنِیْهَا‘ سے ظاہر ہے کہ اس نے سورۃ کا کچھ حصہ بلند آواز سے پڑھا ہوگا۔ امام خطابی ’’معالم السنن‘‘ میں فرماتے ہیں:

’ وَ اِنَّمَ اَنْکَرَ عَلَیْهِ مُجَاذَبَتَهٗ اِیَّاهُ فِی قِرَائَةِ السُّوْرَةِ حِیْنَ تَدَاخَلَتِ الْقِرَآءَ تَانِ ‘

۲۔         جہاں تک سورۃ فاتحہ کا تعلق ہے، اس کے بارے میں امام خطابی فرماتے ہیں:

’ فَاَمَّا قِرَآئَةُ فَاتِحَةِ الْکِتَابِ فَاِنَّهٗ مَأُمُوْرٌ بِهَا عَلٰی کُلِّ حَالٍ اِنْ اَمْکَنَهٗ اَنْ یَّقْرَأَ فِی السَّکْتَةِ فَعَلَ وَ اِلَّا قَرَأَ مَعَهٗ لَا مَحَالَةَ ‘

’’جہاں تک سورۃ الفاتحہ کا تعلق ہے، تو وہ ہر حال میں اس کے پڑھنے کا پابند ہے ، اگر ممکن ہو تو خاموشی کے وقفہ میں پڑھے ورنہ ساتھ ساتھ!‘‘

۳۔        سورۃ الفاتحہ نہیں چھوڑ سکتا۔

۴۔        ظاہر ہے کہ باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے سورت سِرّی پڑھی ہو گی۔ اس لیے تنبیہ کی ضرورت صرف اس ایک کو سمجھی گئی، جس نے سرِّی کی مخالفت کی۔

۵۔        ممکن ہے صحابی کی مراد دونوں ہوں۔ جہر میں چونکہ آپﷺ کی سنت کی مخالفت تھی اس لیے اس سے منع فرمادیا۔

۶۔        آپﷺایک آدھ آیت اونچی سناتے تھے۔ لیکن اس نے زیادہ قراء ت کی ہوگی نیز آپﷺ کی اونچی قراء ت کا مقصود یہ ظاہر کرنا ہوسکتا ہے کہ سِرّی نمازوں میں سورۃ فاتحہ کے علاوہ دیگر سورتوں کی قراء ت بھی مشروع ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ آپﷺ کی قراء ت جہراً بے فائدہ نہ تھی، جب کہ مقتدی کی قراء ت جہراً خلل کا باعث ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں جب امام سورۃ فاتحہ کے سوا کوئی سورۃ جہراً پڑھے گا ، تو مقتدی اسے خاموشی سے سنیں گے۔ مگر جب مقتدی ایسا کرے گا تو امام خاموش نہ ہوگا۔ لہٰذا اختلاط واقع ہو گا۔

۷۔        ’خَالَجَنِیْهَا‘ سے مقصود(جہر سے) انکار ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:434

محدث فتویٰ

تبصرے