السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو ۔ جس کی آمین امام کی آمین کے مطابق ہوگئی، اس کے سابقہ گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ اس حدیث کی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ امام اور مقتدی ایک ساتھ آمین کہیں۔ اسی طرح ایک حدیث میں یہ ہے کہ جب امام سَمِعَ اللّٰهُ لِمَن حَمِدَهٗ کہے تو تم اَللّٰهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الحَمدُ کہو۔ جس کا قول فرشتوں کے قول کے موافق ہوگیا اس کے سابقہ گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ کیا آمین کی حدیث کی طرح امام اور مقتدی ایک ساتھ رَبَّنَا لَكَ الحَمدُ کہیں گے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دونوں احادیث کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ ’ اِذَا أَمَّنَ الاِمَامُ فَأَمِّنُوا ، فَإِنَّهٗ مَن وَافَقَ تَامِینُهٗ تَامِینَ المَلَائِکَةِ، غُفِرَ لَهٗ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِهٖ ‘متفق علیه،صحیح البخاری،بَابُ جَهْرِ الإِمَامِ بِالتَّأْمِینِ ،رقم:۷۸۰،و رقم:۶۴۰۲،صحیح مسلم، رقم:۴۱۰
۲۔ ’ إِذَا قَالَ الاِمَامُ: سَمِعَ اللّٰهُ لِمَن حَمِدَهٗ فَقُولُوا: اَللّٰهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الحَمدُ، فَإِنَّهٗ مَن وَافَقَ قَولُهٗ قَولَ المَلَائِکَةِ غُفِرَ لَهٗ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِهٖ ‘متفق علیه،صحیح البخاریبَابُ فَضْلِ اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الحَمْدُ ،رقم:۷۹۶، صحیح مسلم،رقم:۴۰۹
ان دونوں احادیث میں فاء آئی ہے، جو ترتیب اور تعقیب کا تقاضا کرتی ہے۔ یعنی اس کا تقاضا یہ ہے کہ مقتدی کا قول (آمین اور رَبَّنَا …) دونوں صورتوں میں امام کے قول کے بعد متصل ہونا چاہیے۔ نہ کہ برابر ۔جس طرح کہ سائل کا خیال ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ پہلی حدیث میںموافقت سے مراد امام کی موافقت نہیں۔ بلکہ فرشتوں کی موافقت ہے، جس طرح کہ دوسری حدیث میںبھی اسی امر کی تصریح ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب