سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(499) آمین بالجہر

  • 24509
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 482

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جَہری نماز میں امام جب﴿وَ لَا الضَّالِّینَ﴾کہے تو مقتدی فوراً آمین کہہ سکتے ہیں یا جب امام کہے تواس کی آمین سن کر مقتدی آمین کہے؟ ہمارے یہاں ایک مولوی صاحب کہتے ہیں کہ ’إِذَا قَالَ الاِمَامُ ﴿غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیهِم وَلَا الضَّالِّینَ﴾ فَقُولُوا: آمِینَ‘ کا مطلب یہ ہے کہ امام جب بلند آواز سے آمین کہے تو مقتدی پھر بول سکتے ہیں۔ وہ ’’سنن کبریٰ‘‘ کی کسی حدیث کا حوالہ دیتے ہیں:’ إِذَا قَالَ الاِمَامُ:﴿وَ لَا الضَّالِّینَ﴾ وَقَالَ: اٰمِینَ فَقُولُوا: آمِینَ ‘  آپ پوری تحقیق سے اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جمہوراہلِ علم کے نزدیک مستحب یہ ہے، کہ مقتدی کی (آمین) امام کی (آمین) کے ساتھ ہو۔ چنانچہ اس سلسلہ میں ان کا استدال ایک روایت سے ہے، جس کے الفاظ یوں ہے:

’اِذَا قَالَ الاِمَامُ:﴿غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیهِم وَ لَا الضَّالِّینَ﴾ فَقُولُوا: آمِین، فَإِنَّ المَلَائِکَةَ تَقُولُ: آمِینَ۔ وَ إِنَّ الاِمَامَ یَقُولُ: آمِین۔ فَمَن وَافَقَ تَامِینُهٗ تَامِینَ المَلَائِکَةِ،  غُفِرَ لَهٗ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِهٖ‘ (النسائی، ابوداؤد، والسراج) سنن النسائی،بَابُ جَهْرُ الْإِمَامِ بِآمِینَ ، رقم:۹۲۷، سنن أبی داؤد،بَابُ التَّأْمِینِ وَرَاء َ الْإِمَامِ، رقم: ۹۳۶

یعنی ’’جب امام ﴿غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیهِم وَلَا الضَّالِّینَ﴾ کہے، تو تم آمین کہو۔ کیونکہ فرشتے آمین کہتے ہیں، اور اس لئے بھی کہ امام بھی آمین کہتا ہے۔ پس جس کی (آمین) فرشتوں کی (آمین) سے موافق ہوتی ہے، اس کے سابقہ گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔‘‘

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’ وَهُوَ دَالٌّ عَلٰی أَنَّ المُرَادَ، المُوَافَقةُ فِی القَولِ، وَالزَّمَانِ‘

یعنی یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے، کہ موافقت سے مراد قولی اور زبانی موافقت ہے۔

اور امام خطابی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں :

’ مَعنَٰی قَولِهٖ إِذَا قَالَ الاِمَامُ﴿وَلَا الضَّالِینَ﴾ فَقُولُوا : آمِین ! أَی مَعَ الاِمَامِ، حَتّٰی یَقَعُ تَامِینُکُم، وَ تَامِینُهٗ مَعًا ‘المعالم ۲۲۴/۱

’’فَقُولُوا آمِینَ‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ امام کے ساتھ آمین کہو، حتی کہ تمہاری اور امام کی آمین اکٹھی واقع ہو۔‘‘

یہ بھی یاد رہے کہ اکٹھی ’’آمین‘‘ کہنے کا مفہوم یہ ہر گز نہیں ہے، کہ امام اگر سنّت کو سہواً یا عمداً ترک کر دے، تو مقتدی بھی آمین نہ کہے۔ بلکہ مقتدی کو سنّت پر عمل کرتے ہوئے، پھر بھی آمین کہنی چاہیے۔ صحیح حدیث میں وارد ہے

:«صَلُّوا کَمَا رَأَیتُمُونِی اُصَلِّی‘صحیح البخاری،بَابُ الأَذَانِ لِلمُسَافِرِ، إِذَا کَانُوا جَمَاعَةً، وَالإِقَامَةِ، وَکَذَلِکَ بِعَرَفَةَ وَجَمعٍ… الخ،رقم:۶۳۱

 یعنی جیسے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ ٹھیک اسی طرح نماز پڑھو۔

 تو گویا آپﷺنے فرمایا: کہ تم ہر دو صورت آمین بلند آواز سے کہو۔نیز امام شافعی فرماتے ہیں:

’عَلٰی أَنَّ المَامُومَ یُؤَمِّنَُ، وَ لَو تَرَکَهُ الاِمَامُ سَهوًا، أَو عُمدًا  ‘ (الاُمّ)

یعنی ’’مأموم(مقتدی) کو آمین کہنی چاہیے، اگرچہ امام بھول کر یا قصداً چھوڑ دے۔‘‘

 اور سائل کے سنن کبریٰ کے حوالہ سے نقل کردہ الفاظ اصل میں نہیں ہیں اور اگر بالفرض یہ ثابت بھی ہوجائیں، تو ان کا مفہوم وہی ہے جو پہلے بیان ہوچکا۔ کہ مقتدی کی ’’آمین‘‘ آگے پیچھے کی بجائے، امام کے ساتھ ہونی چاہیے۔ بلکہ امام بیہقی کے قائم کردہ عناوین اس پر دالّ(دلالت کرتے ) ہیں، کہ امام اور مأموم (یعنی مقتدی) دونوں کو آمین کہنی چاہیے۔(سنن کبرٰی) السنن الکبرٰی للبیہقی، باب التامین :۵۵،باب جہرالإمام بالتأمین :۵۶۔ و ۵۸

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:423

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ