السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز باجماعت میں سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہیے یا نہیں کیونکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ امام کی قرأت کے دوران خاموشی اختیار کرنی چاہیے۔ وضاحت کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی مرفوع متصل حدیث ہے:
’ لَا صَلَاةَ لِمَن لَّم یَّقرَأ بِفَاتِحَةِ الکِتَابِ ‘ (متفق علیه) صحیح البخاری، باب وُجُوبِ القِرَائَةِ لِلاِمَامِ وَالمَامُومِ فِی الصَّلٰوةِ کُلِّهَا … الخ،رقم:۷۵۶،صحیح مسلم:۳۹۴
’’ جو سورت فاتحہ نہ پڑھے اس کی کوئی نماز نہیں۔‘‘
حدیث ہذا عموم کے اعتبار سے سب حالتوں کو شامل ہے۔ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت میں ’’خلف الامام‘‘ کی تصریح بھی وارد ہے:
’لَا صَلَاةَ لِمَن لَّم یَقرَأ بِفَاتِحَةِ الکِتَابِ خَلفَ الاِمَامِ ‘ (اسنادہ صحیح)
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! کتاب:’’ الکتاب المستطاب‘‘ (لشیخنا محدث روپڑی رحمہ اللہ ،ص:۳۵۰)
پندرہ اپریل ۲۰۰۵ء کے الاعتصام میں فاضل محقق مولانا ارشاد الحق اثری﷾ کا مضمون بعنوان ’’نماز میں سورۂ فاتحہ سہواً رہ جائے تو کیا حکم ہے ؟‘‘شائع ہوا، فی الجملہ ان کی تحقیق قابلِ تعریف ہے۔ جزاہ اﷲ خیرا۔ لیکن ایک بات محلِ تردد ہے ،موصوف فرماتے ہیں:ـ
’’امام ، مقتدی یا منفرد جو بھی ’’سورۂ فاتحہ‘‘ بھول جائے، اسے وہ رکعت دوبارہ پڑھنی چاہیے۔‘‘
میرے خیال میں اس موقف پر نظر ثانی ہونی چاہیے۔ انھیں یوں کہنا چاہیے تھا، کہ جس رکعت میں سورۂ فاتحہ رہ جائے ، وہ اور اس کے بعد والی رکعت کو دوبارہ پڑھنا چاہیے کیونکہ ’’اَلبِنَاءُعَلَی الفَاسِدِ فَاسِدٌ‘‘ کے تحت بعد والی نماز تو نماز ہی تصور نہیں ہوگی۔ (واﷲ اعلم)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب