السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حدیث مُسی الصلوٰۃ علماء میں معروف ہے جس میں ہے ۔ایک شخص نے رسول اللہﷺ کے سامنے نماز پڑھی پھر آکر سلام کیا تو آپﷺ نے سلام کا جواب دینے کے بعد فرمایاکہ نما زپڑھو تم نے نماز نہیں پڑھی۔ تین یا چار مرتبہ نماز پڑھنے کے بعد اس نے سوال کیا کہ مجھے نماز سکھائیں آپﷺ نے نماز سکھاتے ہوئے فرمایا پھر قرآن پڑھو جتنا میسر ہو، بتایا جاتا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا:’اِقرَاء بِأُمَّ القُراٰنَ‘ براہِ مہربانی ان الفاظ کی فنی حیثیت اور مکمل متن مع حوالہ تحریر فرمائیں
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
’’سنن ابی داؤد‘‘ میں رفاعہ( رضی اللہ عنہ ) کی حدیث میں ہے :
«ثُمَّ اقرَاء بِاُمِّ القُراٰنِ، وَ بِمَا شَائَ اللّٰهُ اَن تَقرَأَ‘"سننن أبی داؤد،بَابُ صَلَاةِ مَنْ لَا یُقِیمُ صُلْبَهُ فِی الرُّکُوعِ وَالسُّجُودِ،رقم:۸۵۹
"یعنی ’’ پھر سورۃ الفاتحہ کی اور ( اس کے علاوہ) جتنی اﷲ توفیق دے قرأت کر۔‘‘
اسی طرح ’’مسند احمد‘‘ اور ابن حبان میں ہے:
’اِقرَاء بِاُمِّ القرُآنِ ، ثُمَّ اقرَأ بِمَا شِئتَ‘"صحیح ابن حبان،ذِکْرُ الْخَبَرِ الدَّالِّ عَلَی أَنَّ قَوْلَهُ ﷺ:فَلَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأُمِّ الْکِتَابِ…الخ ،رقم:۱۷۸۷" بحوالہ ’’مرعاۃ المفاتیح‘‘ (۵۲۳/۱)
اور علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:کہ جزء القراء ۃ امام بخاری میں بسند صحیح وارد ہے، کہ آ پ نے ’’مُسِیُٔی الصلوۃ‘‘(نماز ٹھیک نہ پڑھنے والے) کو حکم دیا تھا کہ نماز میں فاتحہ پڑھے۔ صفۃ الصلاۃ،ص:۶۹
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب