السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ذیل میں چند صحیح احادیث کا ترجمہ، عدمِ فاتحہ خلف الامام کی تائید میں ارسال کر رہا ہوں ، امید ہے کہ وضاحت کرکے تَشَفِّی فرمائیں گے۔
۱۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا فتویٰ ترجمۂ حدیث: جب کوئی شخص امام کے پیچھے ہو تو اس کے لیے کوئی قرأت نہیں، چاہے فاتحہ ہو یا غیر فاتحہ۔ صحیح مسلم، باب سُجود التِّلاوة،رقم:۵۷۷
۲۔ امام کے پیچھے قرأت نہ کرنے کے جواز میں جابر رضی اللہ عنہ کا فتویٰ:آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی نے ایک رکعت بھی پڑھی اور اس میں فاتحہ نہ پڑھی تو اس کی نماز نہیں الا یہ کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔( مؤطا امام مالک، ترمذی، امام ترمذی نے اس کو حسن صحیح کہا ہے) سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاء َ فِی تَرْکِ القِرَاء َۃِ خَلْفَ الإِمَامِ إِذَا جَہَرَ الإِمَامُ بِالقِرَاء َۃِ ،رقم:۳۱۲
۳۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ رسول اﷲﷺ کا فتویٰ بیان کرتے ہیں: آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نماز سکھا رہے تھے اور بتارہے تھے کہ جب امام ’’سَمِعَ اللّٰه‘‘کہے تو تم ’’رَبَّنَا لَكَ الحَمد‘‘ کہو، وہ رکوع میں جائے تو تم بھی رکوع میں جاؤ۔ اس طرح سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ جب امام قرأت کر رہا ہو تو تم ’ فَاَنصِتُوا‘ چپ رہو۔ صحیح مسلم،بَابُ التَّشہُّدِ فِی الصَّلَاۃِ، رقم:۴۰۴
۴۔ نبیﷺ ایک جَہری نماز پڑھا رہے تھے، آپ کو الجھن پیش آئی ، نماز ختم کرنے کے بعد فرمایا کہ کون میرے پیچھے قرأت کر رہا تھا؟ صحابہ نے کہا کہ ہم لوگ قرأت کر رہے تھے اس پر نبیﷺ نے ارشاد فرمایا: ’لَا تَفعَلُوا اِلَّا بِفَاتِحَةِ الکِتَاب‘"سنن أبی داؤد،بَابُ مَنْ تَرَکَ الْقِرَاء َۃَ فِی صَلَاتِہِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ،رقم:۸۲۳"’’جہری قرأت میں سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھو۔‘‘
اس روایت پر اعتراض:
اس روایت میں محمد بن اسحاق کا تفردہے اور اس کو دَجَّال اور کذَّاب کہا گیا ہے اس کے علاوہ اس بات کوکوئی اور بیان نہیں کرتا۔ اس پر دوسرا الزام یہ ہے کہ یہ مُدَلِّس ہے اور مُدَلِّس کی ’’عَن‘‘ سے روایت ناقابلِ قبول ہے اور اس میں محمد بن اسحاق ’’عَن‘‘ سے روایت کرتا ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے جب دریافت کیا ’’کوئی ابھی میرے ساتھ قرأت کر رہا تھا؟‘‘ تو ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اقرار کیا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ اسی لیے قرآن کے سلسلے میں مجھ سے تنازعہ ہورہا تھا۔‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبیﷺ کے ساتھ قرأت کرنے سے رُک گئے۔‘‘ سنن ابی داؤد،بَابُ مَنْ کَرِہَ الْقِرَاء َۃَ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ إِذَا جَہَرَ الْإِمَامُ،رقم:۸۲۶
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ ہم جَہری نمازوں میں امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ کے وقفات میں سورت پڑھتے ہیں، لیکن﴿اَلحَمدُ لِلّٰهِ رَبِّ العَالَمِین﴾ اور دوسری آیت کے بعد نبیﷺ سے اتنے بڑے وقفات ثابت نہیں ہیں جن میں سورۃ فاتحہ کی آیات امام کے پیچھے اس خاموشی کی حالت میں پڑھ سکیں۔ اس طرح اگر کوئی سورت فاتحہ پڑھے گا تو﴿غَیرِ المَغضُوبِ عَلَیهِم وَلاَ الضَّالِّینَ﴾ کے بعد جب امام ’’آمین‘‘ کہے گا تو مقتدی کو ابھی آیت پڑھنا باقی ہو گی۔ اس لیے وہ کبھی امام کے ساتھ آمین نہ کہہ سکے گا اور اس طرح وہ ثواب سے محروم رہے گا، جس کے متعلق یہ آیا ہے کہ جو شخص امام کی ’’آمین‘‘ اور اس پر فرشتوں کی ’’آمین‘‘ کہنے پر ان کی مطابقت میں ’’آمین‘‘ کہے گا اس کے اگلے (پرانے) گناہ معاف ہو جائیں گے۔ صحیح البخاریبَابُ جَہْرِ المَأْمُومِ بِالتَّأْمِینِ،رقم:۷۸۲، صحیح مسلم،رقم:۴۱۰
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا قول بایں الفاظ مروی ہے:
’ عَن عَطَاءِ بنِ یَسَارٍ، اَنَّهٗ اَخبَرَهٗ، اَنَّهٗ سَأَلَ زَیدَبنَ ثَابِتٍ عَنِ القِرَاءَةِ مَعَ الاِمَامِ، فَقَالَ: لَا قِرَاءَةَ مَعَ الإِمَامِ فِی شَیئٍ ‘صحیح مسلم، باب سُجود التِّلاوة،رقم:۵۷۷
’’عطاء بن یسار نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے امام کے ساتھ قرأت کے بارے میں دریافت کیا، تو انھوں نے جواباً فرمایا : امام کے ساتھ کوئی قرأت نہیں۔‘‘
عبارت ہذا کے ترجمہ سے ظاہر ہے، کہ سائل نے انتساب میں جو لفظ۔ فاتحہ کا اضافہ کیا ہے، وہ صحیح مسلم میں نہیں ہے۔شارح مسلم امام نووی رحمہ اللہ نے اس اثر کے دو جوابات دیے ہیں، جن کا ماحاصل یہ ہے :
۱۔ ثابت شدہ احادیث ’’لَا صَلٰوةَ لِمَن لَّم یَقرَأ بِاُمِّ القُراٰنِ۔ اِذَا کُنتُم خَلفِی ، فَلَا تَقرَؤُا اِلَّا بِاُمِّ القُراٰنِ‘‘ اور ان کے ہم معنی دیگر احادیث زید رضی اللہ عنہ وغیرہ کے قول پر مقدم ہیں۔
۲۔ زید کا قول ’’ما بعد الفاتحہ‘ جَہری نمازوں میں قرأت پر محمول ہو گا۔ یہ تأویل ضروری ہے، تاکہ قول ہذا کی صحیح احادیث سے موافقت ہو سکے۔ جن میں فاتحہ کے علاوہ سورت کی قرأت سے مقتدی کو منع کیا گیا ہے اور علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ اس کے جواب میں رقم طراز ہیں:
زید رضی اللہ عنہ کا یہ ’’أثر‘‘ ’ما عدا فاتحة‘ (فاتحہ کے علاوہ ) پر یا ’’ترکِ جہر‘‘ پر محمول ہو گا، تاکہ اس میں اور احادیثِ مرفوعہ صحیحہ میں موافقت ہوجائے… اور اگر یہ ’’أثر‘‘ (ما عدا فاتحہ) یا ’’ترکِ جہر‘‘ پر محمول نہ ہو، تو احادیثِ مرفوعہ صحیحہ اس پر مقدم ہوں گی۔‘‘ تحقیق الکلام، حصہ دوم،۲۱۴
علامہ موصوف کا یہ مدلل جواب، دراصل امام نووی رحمہ اللہ اور بیہقی کی گفتگو کا ملخص ہے، جس میںایک عاقل اور صاحبِ بصیرت انسان کے لیے دعوتِ فکر و تحقیق ہے، تاکہ عظمتِ حدیث اور مقامِ سنت پر آنچ نہ آنے پائے۔
اس بناء پر ائمہ حنفیہ مثلاً: ابن الہمام اور ملا علی قاری وغیرہ نے صراحت کی ہے، کہ حنفیہ کے ہاں صحابی کا قول قابل حجت و استدلال ہے، بشرطیکہ کوئی مرفوع حدیث اس کے منافی نہ ہو۔ چنانچہ فقیہ ابن الہمام فرماتے ہیں:
’ إِنَّ قَولَ الصَّحَابِیِّ حُجَّةٌ فَیَجِبُ تَقلِیدُهٗ عِندَنَا،إِذَا لَم یَنفِهٖ شَیئٌ آخَرُ مِنَ السُّنَّةِ ‘فتح القدیر،۲۶۴/۳
یعنی صحابی کا قول قابلِ حجت ہے۔ ہمارے نزدیک اس کی تقلید واجب ہے، بشرطیکہ سنت میں کوئی اس کے منافی نہ ہو۔
اور ملا علی قاری فرماتے ہیں:
’ قَولُ الصَّحَابِیِّ حُجَّةٌ عِندَنَا۔ إِذَا لَم یَنفِهٖ شَیئٌ آخَرُ مِنَ السُّنَّةِ ‘مرقاة،۲۳۴/۲
یعنی صحابی کا قول ہمارے نزدیک قابلِ حجت ہے، بشرطیکہ سنت کے منافی نہ ہو۔
اور مولانا عبد الحی حنفی ’’امام الکلام‘‘ میں فرماتے ہیں:
’صَرَّحَهٗ ابنُ الهَمَّامِ، وَ غَیرُهٗ أَنَّ قَولَ الصَّحَابِیِّ حُجَّةٌ، مَا لَم یَنفِهٖ شَیئٌ مِنَ السُّنَّةِ، وَ مِنَ المَعلُومِ أَنَّ الأَحَادِیثَ المَرفُوعَةَ دَالَّةٌ عَلٰی إِجَازَةِ قِراءةِ الفَاتِحَةِ خَلفَ الأئِمَّةِ، فَکَیفَ یُوخَذُ بِالأَثَارِ وَ تُترَكَ السُّنَّةُ، (اِنتَهٰی) ‘ (ص،۱۶۱)
یعنی ’’ابن ہمام وغیرہ نے اس بات کی تصریح کی ہے، کہ صحابی کا قول حجت ہے، بشرطیکہ سنت سے کوئی شے اس کی نفی نہ کرے اور یہ بات معلوم ہے کہ مرفوع احادیث اس بات پر دال ہیں، کہ اماموں کی اقتداء میں فاتحہ پڑھنے کی اجازت ہے۔ پس یہ کیسے ہو سکتا ہے، کہ آثار کو لے لیا جائے اور سنت کو چھوڑ دیا جائے؟‘‘
اس سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی، کہ سنت کے مقابلہ میں کسی کے قول کی کوئی حیثیت نہیں۔چاہے وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کیوں نہ ہوں۔ یہی جواب ہے۔ ان تمام آثار کا جو محلِ بحث میں سنت کے معارض پیش کیے جاتے ہیں۔اس میں جابر رضی اللہ عنہ کا قول بھی شامل ہے۔ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے ’’التمہید‘‘ اور ’’الاستذکار‘‘ میں صراحت کی ہے، کہ جس کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے ’’ترکِ قرأتِ خلفِ امام‘‘ ثابت ہے۔ اس سے اس کا خلاف بھی منقول ہے، ما سوائے جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ کے۔ لیکن علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں، کہ ان سے بھی قرأت خلف الامام ثابت ہے۔ وہ بحوالہ ’’ابن ماجہ‘‘ فرماتے ہیں:
’ عَن یَزِیدَ الفَقِیهِ ، عَن جَابِرِ بنِ عَبدِ اللّٰهِ، قَالَ: کُنَّا نَقرَأُ فِی الظُّهرِ ، وَالعَصرِ خَلفَ الاِمَامِ فِی الرَّکعَتَینِ الأُولَیَینِ بِفَاتِحَةِ الکِتَابِ، وَ سُورَةٍ ، وَ فِی الاُخرَیَینِ بِفَاتِحَةِ الکِتَابِ۔‘ تحقیق الکلام حصه اول ،ص:۱۰۱
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی روایت میں لفظ ﴿وَ اِذَا قَرَأَ فَاَنصِتُوا﴾(النحل:۹۸) کی تصحیح اور تضعیف میں ائمۂ فن اورنُقَاد اور حُفَّاظِ حدیث کا اختلاف ہے:
امام احمد، امام مسلم، اور حافظ منذری رحمہم اللہ نے اس لفظ کو صحیح قرار دیا ہے، جب کہ اکثر حفاظ ، امام بخاری، ابوداؤد، ابوحاتم ، یحییٰ بن معین، حاکم، دارقطنی، ابن خزیمہ، محمد بن یحییٰ الذھلی، حافظ ابو علی نیشاپوری، حافظ علی بن عمر اور بیہقی رحمہم اللہ نے اس لفظ کو ضعیف گردانا ہے۔
محدثین کے ہاں یہ مُسَلَّمَہ اصول ہے، کہ تعارض کی صورت میں کثرت کو قلت پر غالب قرار دیا جاتا ہے، لہٰذا اکثریت کا قول قابلِ اعتبار ٹھہرا کہ یہ ٹکڑا ضعیف ہے۔ اس کی دو وجہیں ہیں:
۱۔ یہ لفظ غیر محفوظ اور سلیمان تیمی کا وہم ہے۔
۲۔ سلیمان تیمی نے قتادہ سے سماع کی صراحت نہیں کی۔ جب کہ قتادہ مدلس ہے۔ اس طرح قتادہ نے بھی یونس بن جبیر سے سماع کی صراحت نہیں کی۔ سلیمان تیمی اور قتادہ کا مدلس ہونا ’’کتب أسماء الرجال‘‘میں معروف ہے اور اگر تفصیل مطلوب ہو، تو اس بات میں ’’تحقیق الکلام‘‘ کا مراجعہ بے حد مفید ہے۔ ملاحظہ ہو! (حصہ دوم، ص:۸۳، تا ۱۰۱) اور بفرضِ محال اگر اس کو صحیح تسلیم کر بھی لیا جائے، تو اس کا اطلاق ’’سورۃ فاتحہ‘‘ کے علاوہ پر ہو گا۔
محمد بن اسحاق پر جرح ،تدلیس اور تَفَرُّد کا جواب بالاختصار ملاحظہ ہو!
علامہ ابن الہمام حنفی فرماتے ہیں:
’’بلاشبہ محمد بن اسحاق رحمہ اللہ ثقہ راوی ہے اور امام مالک رحمہ اللہ سے جو اس کے بارے میں جرح نقل کی گئی ہے، وہ ثابت نہیں اور اگر ثابت ہو تو اہلِ علم نے اس کو قبول نہیں کیا اور کس طرح قبول ہو،جبکہ شعبہ نے اس کو ’’امیر المومنین فی الحدیث‘‘ کہا ہے۔ کبار ائمہ نے اس سے روایت بیان کی ہے۔بخاری رحمہ اللہ نے ’’ جُزئُ القراء ۃ‘‘ میں بڑے زور شور سے اس کا ثقہ ہونا ثابت کیا ہے۔ جبکہ ابن حبان نے اس سے رجوع کر لیا تھا اور محمد بن اسحاق سے صلح کی نیز اس کے پاس تحفہ بھیجا۔‘‘ فتح القدیر بحوالہ تحقیق،ص:۵۷
اور علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں:’’ بیہقی نے ذکر کیا ہے، کہ محمد بن اسحاق نے اپنے شیخ سے یہ حدیث سُنی ہے، اور یہ حدیث متصل صحیح ہے۔ یعنی اس میں تدلیس وغیرہ کا کوئی شبہ نہیں۔‘‘ نصب الرایہ، ص:۲۳۱
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’القول المسدد‘‘ میں فرماتے ہیں:’’ابن جوزی نے محمد بن اسحاق پر جو حملہ کیا ہے وہ فضول ہے، کیونکہ ائمہ نے اس کی حدیث کو قبول کیا ہے۔وہ سچا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس میں تدلیس کا عیب ہے۔ جبکہ فاتحہ کی حدیث میں وہ بھی نہیں۔ کیونکہ مکحول سے ان کا سماع ثابت ہے۔ پھر محمد بن اسحاق اس روایت کے بیان میں متفرد بھی نہیں۔‘‘ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ وَ تَابَعَهٗ زَیدُ بنُ وَاقِدٍ، وغَیرُهٗ ، عَن مَکحُولٍ ‘التلخیص:۸۷
یعنی اس حدیث کو بیان کرنے میں محمد بن اسحاق متفرد نہیں۔ زید بن واقد وغیرہ نے عن مکحول اس کی متابعت کی ہے۔
محمد بن اسحاق رحمہ اللہ پر تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو! ’’تحقیق الکلام‘‘ حصہ اول (ص:۵۷ تا۶۲) اور ’’اہلحدیث کے امتیازی مسائل‘‘ (شیخنا محدث روپڑی رحمہ اللہ ، ص:۶۳)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت کا جواب یہ ہے، کہ اس میں جملہ ’’ فَانتَهَی النَّاسُ عَنِ القِرَائَة ‘‘ یعنی لوگ قرأت کرنے سے باز آگئے۔ یہ زُہری (راوی حدیث) کا ’’مُدرَج‘‘ کلام ہے۔ رسول اﷲﷺ کا کلام نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ فَانتَهَی النَّاسُ إِلٰی آخِرِهٖ مُدرَجٌ فِی الخَبَرِ مِن کَلَامِ الزُّهرِیِّ، بَیَّنَهُ الخَطِیبُ۔ وَاتَّفَقَ عَلَیهُ البُخَارِیُّ فِی التَّارِیخِ، وَ أَبُودَاؤٗدَ، وَ یَعقُوبُ بنُ سُفیَانَ، وَالذُّهَلِیُّ، وَالخَطَّابِی، وَ غَیرُهُم ‘تلخیص،ص:۸۷
اور پھر راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بذاتِ خود امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔ حنفیہ کا مُسَلَّمَہ اصول ہے، کہ راوی جب اپنی روایت کے خلاف کرے، تو راوی کے عمل کو لیا جاتا ہے، اور روایت کو چھوڑ دیا جاتاہے اور اسی طرح کی صورت حال کچھ ﴿وَ إِذَا قَرَأَ فَأنصِتُوا﴾(النحل:۹۸) میں بھی ہے۔ کیونکہ یہ جملہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ، لیکن راوی (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ) کا عمل اس کے خلاف ہے۔ لہٰذا حنفیہ کو اپنے اصول کی بناء پر ’’فاتحہ خلف الامام‘‘ کا قائل ہونا چاہیے۔‘‘ (والتوفیق بید اﷲ)
مُقتدی کے لیے ’’فاتحہ‘‘ بالخصوص وقفات میں پڑھنے کا کوئی تَقُیُّد(قید) نہیں۔ تاہم مقتدی کے لیے ضروری ہے، کہ جیسے بھی ممکن ہو،سِرِّی اور جَہری نمازوں میں فاتحہ پڑھے۔ اس بارے میں حضرت مکحول کا تفصیلی فتوٰی ’’سنن أبی داؤد‘‘ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے ۔ مزید تفصیل کے لیے ’’عون المعبود‘‘ (۳۰۵/۱) اور اگر فاتحہ پڑھتے ہوئے کسی کی کوئی آیت رہ جائے، پھر بھی امام کے ساتھ ’’آمین‘‘ کہہ کر بقیہ مکمل کر لے، تاکہ موافقت سے محروم نہ رہے ۔ (واﷲ أعلم)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب