سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(477) مقتدی سورئہ فاتحہ کس وقت پڑھے؟

  • 24487
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 553

سوال

(477) مقتدی سورئہ فاتحہ کس وقت پڑھے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسعود احمد بی ایس سی ،امیر جماعت المسلمین (رجسٹرڈ) نے درج ذیل حدیث سے ثابت کیا ہے کہ سورئہ فاتحہ اس وقت پڑھی جائے جب امام خاموش ہو۔ ‘‘حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں:

’ کانوا یقراون خلف رسول اللهﷺ إذا انصت فإذا قرا لم یقرءوا وإذا انصت قرءوا ‘بیهقی:جزء القراة ؍ صلوٰة المسلمین

اس کی سند کیسی ہے؟ اگر سند صحیح ہے تو سورئہ فاتحہ کس وقت پڑھی جائے گی؟ امام کے سکتوں میں یا مروّجہ طریقہ ہی صحیح ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اثر ہذا سند کے اعتبار سے اگرچہ قابل قبول ہے لیکن یہ اس بارے میں نص نہیں کہ دیگر مواقع پر فاتحہ کی قرات نہیں ہوسکتی،اس کتاب کے صفحہ  پر ہے:ابوہریرہ کے شاگرد نے کہا : فکیف اصنع إذا جھر الإمام’’جب امام جہری قرات کرے تو مجھے کیا کرنا چاہئے؟‘‘ جواب میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  نے فرمایا: اقرا بها فی نفسك ’’اپنے جی میں پڑھ لے۔‘‘ پھربیہقی نے اپنی سند کے ساتھ مکحول سے نقل کیا ہے:

’اقْرَأْ بِهَا یعنی بالفاتحة  فِیمَا جَهَرَ بِهَا الْإِمَامُ إِذَا قَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ وَسَکَتَ سِرًّا، وَإِنْ لَمْ یَسْکُتْ قَرَأْتَهَا قَبْلَهُ وَمَعَهُ وَبَعْدَهُ، لَا تَتْرُکَنَّهَا عَلَی حَالٍ ‘ السنن الکبریٰ للبیهقی،بَابُ مَنْ قَالَ یَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ فِیمَا یَجْهَرُ فِیهِ …الخ ،رقم:۲۹۵۲

’’جب امام جہری قرات کرے تو اس کی خاموشی میں مقتدی سری قرات کرے۔ اور اگر وہ خاموش نہ ہو تو اس سے پہلے اس کے ساتھ اور اس کے بعد قرات کو کسی حال میں مت چھوڑ ۔‘‘

پھر حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ  کی مشہور روایت میں ہے کہ’’ رسول اللہ ﷺ نے صبح کی نماز پڑھائی تو قرات کرنا مشکل ہوگیا۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ نے دریافت کیا:مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ تم اپنے امام کی اقتدا میں قرات کرتے ہو، ہم نے عرض کی:ہاں یارسول اللہ ﷺ ! آپ نے فرمایا سوائے فاتحہ کے کچھ نہ پڑھو، جو فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں۔‘‘ سنن ابی داؤد،بَابُ مَنْ تَرَکَ الْقِرَاء َۃَ فِی صَلَاتِہِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ،رقم:۸۲۳

اس حدیث میں امام کی قرات کے وقت مقتدی کی قراتِ فاتحہ کا جواز ہے، اگر سکتات میں قرات کاتعین ہوتا تو آپ اس کی راہنمائی فرما دیتے۔ اس امر کی صراحت نہ کرنا جواز کی دلیل ہے۔ اصولِ فقہ کا مشہور قاعدہ ہے: تاخیر البیان عن وقت الحاجۃ لایجوز  ‘‘ضرورت کے وقت وضاحت کو مؤخر کرنا جائز نہیں۔‘‘

سنن ابودا ؤد کی روایت میں اَلفاظ یوں ہیں:

 ’فلا تقرء وا بشیء من القرآن إذا جهرتُ إلا بام القرآن ‘سنن ابی داؤد،بَابُ مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِی صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ،رقم:۸۲۴

’’جب میں قراتِ جہری کروں تو سواے اُمّ القرآن کے قرآن سے تم کچھ نہ پڑھو۔‘‘

یہ الفاظ اس بارے میں نص ہیں کہ امام کی جہری قرات کے وقت مقتدی کے لئے فاتحہ پڑھنے کا جواز ہے۔ امام شوکانی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

‘‘شوافع کا فاتحہ کی قرات کے بارے میں ا ختلاف ہے کہ آیا قرات فاتحہ امام کے سکتوں کے دوران ہوگی یا اس کی قرات کے موقع پر؟ احادیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ فاتحہ امام کی قرات کے وقت پڑھی جائے اورامام کے سکوت کے موقعہ پر اگر ممکن ہو تو پڑھنا اَحوط (زیادہ احتیاط)ہے کیونکہ ایسا کرنا پہلے قول والوں کے نزدیک بھی جائز ہے۔اس پر عمل کرنا اجماع پر عمل کرنے کے مترادف ہوگا لیکن یہ معمول بنا لینا کہ امام کے فاتحہ یا سورت کی تلاوت کے وقت ہی فاتحہ پڑھنے کی سعی کی جائے، ایسا کرنا کوئی مستند نہیں بلکہ سب طرح جائز اور سنت ہے۔ البتہ مقتدی کے لئے امام کی قراتِ فاتحہ کے وقت فاتحہ پڑھنا زیادہ مناسب ہے۔‘‘ ملخصاً فی نیل الاوطار:۲؍۲۳۴

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:405

محدث فتویٰ

تبصرے