السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کے شمارہ نمبر۲۶،جلد:۵۰، میں ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا ہے کہ سینے پر ہاتھ باندھنے سنت ہیں اور اس سلسلے کی احادیث سنداً صحیح ہیں صحیح ابن خزیمہ میں درج وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث آپ نے ذکر کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے جب کہ ابن خزیمہ کے حاشیہ میں اسے ضعیف کہا گیا ہے۔ فوٹو سٹیٹ ارسالِ خدمت ہے دریں اثناء نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کے متعلق دوسری روایات کی بھی تحقیق درج کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
’’صحیح ابن خزیمہ‘‘ کے حاشیہ پر جہاں علامہ البانی نے کہا ہے، کہ اس کی سَند کمزور ہے۔ وہاں یہ بیان کیا ہے، کہ شو اہد و طُرق کے اعتبار سے صحیح ہے۔ لہٰذا وارد اشکال رفع ہو گیا۔ اس بناء پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور امام نووی رحمہ اللہ وغیرہ نے اس حدیث کو معرض استدلال میں ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو! (بلوغ المرام، الدرایہ، التلخیص فتح الباری) اور امام نووی رحمہ اللہ (الخلاصہ، شرح المہذب، شرح مسلم)وغیرہ میں۔ اس سلسلہ کی دوسری روایت ھلب الطائی سے مروی ہے۔ اس میں ہے، کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو دیکھا دائیں اور بائیں پھرتے اور میں نے دیکھا کہ سینے پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے۔( أخرجہ احمد) اس کی سند متصل اور راوی سب ثقہ ہیں۔(تحفۃ الاحوذی) اور طاؤوس کی مرسل روایت میں ہے:
’یَضَعُ یَدَهُ الیُمنٰی عَلٰی یَدِهِ الیُسرٰی ، ثُمَّ یَشُدُّ بَینَهُمَا عَلٰی صَدرِهٖ ، وَهُوَ فِی الصَّلٰوةِ۔‘
ابوداؤد نے اس کو ’’مراسیل‘‘ میں بیان کیا ہے اور سنداً حسن ہے، جب کہ حنفیہ کے نزدیک مرسل روایت مطلقاً قابلِ حجت ہے۔ لہٰذا ان کی طرف سے اعتراض نہیں ہو سکتا اور ہمارے ہاں اس کی تائید دیگر روایات سے ہوتی ہے، اس لیے باعث تقویت ہے اور وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی ’’مسند احمد‘‘ ، ابوداؤد، نسائی وغیرہ میں روایت ہے۔ فرماتے ہیں: کہ آپﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت اور کلائی پر رکھا۔ اس کے بارے میں علامہ البانی فرماتے ہیں: اس کیفیت پر عمل کرنے سے لازماً ہاتھ سینہ پر آئیں گے۔ تجربہ کرکے دیکھیں۔’’تحقیق المشکاۃ‘‘ (۲۴۹/۱)
مزید تفصیل کے لیے فتح الغفور فی تحقیق وضع الیدین علی الصدور‘‘ ، رسالہ محمد حیات سندھی اور ’’تحفۃ الاحوذی‘‘ ملاحظہ فرمائیں!
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب