السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ذہن میں چند ایک سوال کافی دیر سے کھٹک رہے ہیں براہِ کرم شافی جواب سے نواز کر مشکور فرمائیں میں گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ میں انگلش کا لیکچرار ہوں،طلبا بھی یہ سوال پوچھتے رہتے ہیں۔
۱۔ نماز میں ہاتھ کہاں باندھنے چاہئیں ؟ عام طور پر مشہور ہے کہ ہاتھ سینے پر باندھنے چاہیں اس کے بارے میں کونسی حدیث ہے۔ کیا ہاتھ سینے کے نیچے اور ناف کے اُوپر بھی ہو سکتے ہیں۔ سینہ کی لغت میں تعریف کیا ہے ؟ مجھے یاد ہے کہ چند ماہ قبل آپ نے کسی سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ سینہ پہلی پسلی سے لے کر آخری پسلی تک ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں متعلقہ لغت کا حوالہ مع عبارت دے دیں۔
۲۔ نماز پڑھتے وقت کندھے سے کندھا گھٹنے سے گھٹنا اور ٹخنے سے ٹخنا ملانے کا حکم ہے۔
لیکن عام طور پر پاؤں بالکل سیدھے نہیں ہوتے بلکہ انگلیاں (پاؤں کا سامنے والا حصہ) باہر دائیںطرف نکلی ہوتی ہے اور ایڑھی اندر کی طرف مڑی ہوتی ہے سڑک پر اَن گنت لوگ دیکھ کر پتہ چل جاتا ہے کہ خدا نے اکثریت کی ساخت ایسی بنائی ہے اب مکمل تمام پاؤں نماز میں صرف اسی صورت میں ملایا جا سکتا ہے کہ پاؤں کو کھینچ کر، زور لگا کر سیدھا کیا جائے، جب کہ اس صورت میں ٹانگوں میں کھچاؤ اور درد ہو سکتا ہے پھر ہر آدمی کے پاؤں کا سائز دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اس لیے ٹخنہ کیسے مل سکتا ہے ؟ یہی الجھن کندھا ملانے کے معاملے میں ہے ہر آدمی کا قد دوسرے سے مختلف ہوتا ہے پانچ فٹ قد والا چھ فٹ قد والے سے کندھے کیسے ملائے؟ کھینچ تان کر بھی کندھے ملانا مشکل ہے کیا چھوٹے قد والابڑے قد والے سے پنجوں کے بل کھڑا ہو کر کندھا ملائے؟ اور پھر گھٹنے سے گھٹنا اورٹخنے سے ٹخنا کیسے ملائے؟
جب سارا زور جسم اور توجہ ذہن ان کاموں کی طرف ہو جائے توقرآن اور نماز کے الفاظ پر غورو فکر کرنے کا موقعہ کہاں ملے گا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(۱) بحالتِ نماز ہاتھ سینے پر باندھنے چاہئیں۔ چنانچہ ’’صحیح ابن خزیمہ‘‘ میں حدیث ہے۔
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:کہ میں نے رسول اﷲﷺ کے ساتھ نماز پڑھی، تو آپﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر سینے پر ہاتھ باندھے اور ’’مسند احمد‘‘ میں ھلب صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو سینے پر ہاتھ رکھے ہوئے دیکھا۔ نیز ’’مراسیل ابوداؤد‘‘ میں ہے۔ حضرت طاؤس فرماتے ہیں: کہ رسول اﷲﷺ اپنا دایاں ہاتھ نماز میں اپنے بائیں ہاتھ پر رکھ کر اپنے سینے پر باندھا کرتے تھے۔ اگرچہ یہ حدیث مرسل ہے، لیکن دوسری مستند احادیث سے مل کر قوی ہو گئی ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ وَضعُهُمَا عَلَی الصَّدرِ، هُوَ الَّذِی ثَبَتَ فِی السُّنَّةِ وَ خِلَافُهُ اِمَّا ضَعِیفٌ، اَو لَا اَصلٌ لَهٗ ‘صفة الصلوة،ص:۵۷
’’دونوں ہاتھوں کو سینے پر رکھنا، یہی سنت سے ثابت ہے اور اس کے برخلاف یا تو ضعیف ہے یا بے بنیاد۔‘‘
سینے کی تعریف اہل زبان کے ہاں یوں ہے:
’ مَا دُونَ العُنُقُ اِلٰی قَضَاءِ الجُوفِ ‘بحواله المنجد
’’گردن کے نیچے سے لے کر پیٹ کے آغاز تک۔‘‘
(۲) صورتِ سوال سے ظاہر ہے، کہ سائل کے ہاں یہ بات مسلمہ ہے، کہ نماز میں مونڈھے سے مونڈھا اور قدم سے قدم ملانا چاہیے، جس طرح کہ صحیح احادیث سے ثابت ہے ۔ البتہ ان کو ملانے کی کیفیت میں تردّد ہے، کہ یہ کیسے ممکن ہے۔
گزارش ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر لوگ انگلیوں کے اطراف کو ملاتے ہیں۔ اس طرح سے واقعی صحیح کیفیت کا پیدا ہونا مشکل امر ہے، لیکن اگر ابتداء میں ہی اطراف انگلیوں کے بجائے قدموں کے ملانے سے آغاز کیا جائے، تو مشکل خود بخود حل ہو جاتی ہے ۔اس طرح سے چھوٹے بڑے قدم کا امتیاز بھی غالباً ختم ہو جاتا ہے۔ البتہ چھوٹے بڑے قد کی صورت میں کندھوں کی امتیازی کیفیت باقی رہتی ہے۔ بعض دفعہ پاؤں میں بھی کیفیت ہوسکتی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے، کہ حدیث میں جو کچھ بیان ہوا، عام جسمانی ساخت کے اعتبار سے ہے۔ نوادر(نہایت قلیل تعداد) کو یہ حکم شامل نہیں۔ ہاں اپنی نیک نیت کے اجرو ثواب سے، وہ شخص محروم نہیں۔ (ان شاء اﷲ)
مسنون کیفیت کو قائم رکھنے کا جذبہ اگر جانبین سے ہو پھر تو کوئی ایسی الجھن پیدا نہیں ہوتی۔ جس سے نماز میں خلل واقع ہو۔ باعثِ تشویش وہ صورت ہے۔ جب جانبین سے عملی اتفاق کا مظاہرہ نہ ہو تو ایسی شکل میں مزید الجھاؤ میں نہیں پڑنا چاہیے، تاکہ نمازی بحالتِ نماز عمل کثیر سے محفوظ رہ سکے جس کی وجہ سے نماز میں نقص پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
جن احادیث میں قدم سے قدم اور کندھے سے کندھا ملانے کا ذکر آتا ہے۔ ان کا مقصد یہ ہے، کہ تمام نمازی صف میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کھڑے ہوں اور درمیان میں خالی جگہ نہ چھوڑیں کسی کے قدم کا چھوٹا یا بڑا ہونا، اس مقصد کے حصول میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ باقی رہی بات قدرتی ساخت کی تو اس سلسلے میں عرض ہے، کہ اگر کسی کے قدموں کا رُخ کچھ زیادہ ہی باہر کی جانب ہو اور انھیں سیدھاکرنا تکلیف کا سبب بنتا ہو، تو ایسے شخص کو تو اس حکم سے مستثنیٰ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ﴿ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفسًا اِلَّا وُسعَھَا﴾ لیکن عام طور پر لوگوں کے قدم تھوڑی سی کوشش اور معمولی سے اہتمام سے سیدھے ہو جاتے ہیں۔ امام مقتدی اور منفرد سب ہی کو حکم ہے، کہ ان کے جسم قدموں سمیت قبلہ رُخ ہوں۔ اس حکم کی پابندی سے احتراز کرنے کے لیے خواہ مخواہ عذر اور حیلے نہیں تراشنے چاہئیں۔( حقیقت یہ ہے کہ یہ قدموں کو سیدھا کرنے کی کوشش دراصل نماز اور زندگی کو سیدھا اور قبلہ رُخ کرنے کی کوشش ہے۔ اس سے نماز میں خَلل پڑنے کے بجائے نماز اور زندگی کی اصلاح اور درستی ہوتی ہے۔(قاری نعیم الحق نعیمؒ)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب