سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(468) امام نماز میں سورۃ الفاتحہ کے شروع میں بسم اللہ جہرًا پڑھے یا سِرًّا؟

  • 24478
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-08
  • مشاہدات : 771

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض ائمہ مساجد جَہری قرأت والی نمازوں میں سورت الحمد سے پہلے یعنی افتتاح کی صورت میں بسم اﷲ نہیں پڑھتے اور نہ ہی الحمد کے بعد قرأت والی سورت سے پہلے بسم اﷲ پڑھتے ہیں۔ استفسار کی صورت میں بخاری شریف کا حوالہ دیتے ہیں جب کہ ہمارے اکثر جلیل القدر اہلِ حدیث بزرگ قرأت میں بسم اﷲ بھی جَہری آواز سے ہی پڑھتے ہیں۔ اس نئی ایجاد سے مقتدیوں کو سہو بھی ہو جاتا ہے اور نماز کی ترتیب و ہیئت میں کمی بیشی کا احتمال بھی رہتا ہے۔ اس لیے مذکورہ بالا سوال کا جواب قرآن و حدیث سے ارشاد فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز میں ’’بسم اﷲ‘‘ کے جَہر اور عدمِ جَہر کے بارے میں روایات کے اختلافات کی بناء پر اہلِ علم کے مختلف اقوال ہیں۔ کچھ لوگ جہر کے قائل ہیں۔ جب کہ دوسرا گروہ عدمِ جَہر کا نظریہ رکھتا ہے۔ اوّل الذکر کے قُدوَہ (پیشوا) امام شافعی رحمہ اللہ  وغیرہ ہیں۔ثانی الذکر میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ  کا شمار ہوتا ہے۔ تیسرے گروہ نے دونوں طرح جواز کو اختیار کیا ہے۔ ان میں سے شیخ البخاری، امام اسحاق بن راہویہ; ہیں۔ بعد میں امام ابن حزم رحمہ اللہ  نے بھی اسی مذہب کو ترجیح دی ہے۔

 اور صاحب ’’المرعاۃ‘‘  فرماتے ہیں: ’وَهُوَ الرَّاجِحُ عِندَنَا‘ ۵۹۱/۱)

 یعنی ہمارے نزدیک راجح مسلک یہی ہے۔

شیخنا محدث روپڑی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’بِسمِ اللّٰہِ‘‘ دونوں طرح درست ہے، خواہ سرّی پڑھے یا جَہری۔ فتاوٰی اہلحدیث۲/۱۳۸

اور سرّی پڑھنے کے دلائل سے ’’صحیح بخاری کی وہ حدیث ہے، جس کی طرف سائل نے اشارہ کیا ہے :

’ عَن اَنَسٍ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُ اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ، وَ اَبَا بَکرٍ، وَ عُمَرَ کَانُوا یَفتَتِحُونَ الصَّلٰوةَ بِاَلحَمدُ لِلّٰهِ رَبِّ العٰلَمِینَ ‘صحیح البخاری،بَابُ مَا یَقُولُ بَعْدَ التَّکْبِیرِ،رقم:۷۴۳

اور سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخنا سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز رحمہ اللہ  رقمطراز ہیں:

’’وَالصَّوَابُ تَقدِیمُ مَا دَلَّ عَلَیهِ حَدِیثُ أَنَسٍ رَضِیَ اللّٰهُ عَنهُ مِن شَرعِیَّةِ الاِسرَارِ بِالبَسمَلَهِ لِصِحَّتِهٖ، وَ صَرَاحَتِهٖ فِی هٰذِهِ المَسئَلَةِ ۔ وَ کَونُهٗ نَسِیَ ذٰلِكَ ، ثُمَّ ذَکَرَهٗ لَا یَقدَحُ فِی رِوَایَتِهٖ۔ کَمَا عُلِمَ ذٰلِكَ فِی الاَصُولِ، وَالمُصطَلَحِ. وَ تُحمَلُ رِوَایَةُ مَن رَوَی الجَهرَ بِالبَسمَلَةِ عَلٰی أَنَّ النَّبِیَّ ﷺ کَانَ یَجهَرُ بِهَا فِی بَعضِ الأَحیَانِ، لِیَعلَمَ مَن وَّرَائَهٗ أَنَّهٗ یَقرَأُهَا۔ وَ بِهٰذَا تَجتَمِعُ الأَحَادِیثُ. وَ قَد وَرَدَت أَحَادِیثُ صَحِیحَةٌ تُؤَیِّدُ مَا دَلَّ عَلَیهِ حَدِیثُ أَنَسٍ مِن شَرعِیَّةِ الاِسرَارِ بِالبَسمَلَةِ ‘‘(وَاللّٰهُ أَعلَمُ) حاشیه فتح الباری۲۲۹/۲

یعنی مسئلہ ہذا میں حضرت انس رضی اللہ عنہ  کی حدیث کے صحیح اور مصرح ہونے کی بناء پر اس کو مقدم کرنا حق و صواب ہے اور ان کا اس کو بھول کر ،پھر یاد کر لینا، روایت میں قادحہ(معیوب) نہیں۔ جس طرح کہ علمِ اصول میں معروف ہے۔ لیکن جس سے جَہری ’’بسملہ‘‘ مروی ہے۔ وہ اس پر محمول ہے، کہ نبیﷺ بسا اوقات جَہری پڑھتے، تاکہ مقتدی کو اس کی قرأت کا علم ہو جائے۔ اس طرح تمام مختلف روایات میں توفیق اور تطبیق ہو جاتی ہے۔ نیز کچھ اور بھی صحیح احادیث حدیث انس رضی اللہ عنہ  کی مؤید ہیں کہ بسملہ سرّی پڑھنی چاہیے۔ (واﷲ أعلم)

واضح ہو کہ اصل قدر و قیمت دلائل کی ہے۔ پھر عمل اسی کے تابع ہونا چاہیے۔ جب کہ جملہ مستندات اسرار (معتبر روایاتِ سِرّی) کے مؤید( تائید میں) ہیں۔ لہٰذا میرے نزدیک بھی راجح بات ’’بِسمِ اللّٰہ‘‘ کو پوشیدہ پڑھنا ہے۔

 تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! حاشیہ کتاب ’’صلوٰۃ الرسولﷺ:۲۳۶تا۲۳۷، (واﷲ أعلم بالصواب)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:397

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ