سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(462) پہلی رکعت کے علاوہ تمام رکعات کی ابتداء تعوذ سے یا تسمیہ سے؟

  • 24472
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1165

سوال

(462) پہلی رکعت کے علاوہ تمام رکعات کی ابتداء تعوذ سے یا تسمیہ سے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز میں دوسری، تیسری، چوتھی رکعت کی ابتداء تعوذ سے کرنی چاہیے یا تسمیہ سے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسئلہ ہذا میں اہلِ علم کااختلاف ہے۔ امام نووی’’المجموع‘‘(۳/۳۲۶) میں فرماتے ہیں: شوافع کا صحیح مذہب یہ ہے، کہ ’’أَعُوذُ بِاللّٰهِ‘‘ ہر رکعت میں پڑھنی مستحب ہے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  کا قول یہ ہے، کہ یہ پہلی رکعت کے ساتھ مخصوص ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ  نے نیل الأوطار (۲۰۵/۲) میں حسن، عطاء اور ابراہیم سے نقل کیا ہے، کہ ’’تعوذ‘‘ ہر رکعت میں مستحب ہے۔ قرآنی عموم سے ان کا استدلال ہے۔﴿فَاِذَا قَرَأتَ القُراٰنَ فَاستَعِذ بِاللّٰهِ ﴾ (النحل:۹۸) علامہ البانی بھی اسی بات کے قائل ہیں۔ اس مسئلہ پر علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے ’’زاد المعاد‘‘ (۶۱/۱) میں کافی مفید بحث کی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  کی روایت ہے:

’ أنَّ النَّبِیَّﷺ کَانَ إِذَا نَهَضَ مِنَ الرَّکعَةِ الثَّانِیَةِ استَفتَحَ القِرَائَةَ وَ لَم یَسکُت۔‘ السنن الصغیربَابُ سَکْتَتَیِ الْإِمَامِ،رقم:۵۴۲،معرفة السنن والآثار،رقم:۳۰۸۵

یعنی ’’نبیﷺ جب دوسری رکعت میں اٹھتے تو بلا خاموشی قرأت کا آغاز کردیتے۔‘‘

 اس سے استدلال کیا ہے کہ تعوذ صرف پہلی رکعت میں ہے۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

فَالأَحوَطُ ، الاِقتِصَارُ عَلٰی مَا وَرَدَت بِهِ السُّنَّةُ ۔ وَهُوَ الاِستِعَاذَةُ قَبلَ قِرَائَةِ الرَّکعَةِ الأُولٰی فَقَط ‘نیل الأوطار:۳۰۵/۲

’’زیادہ احتیاط والا مسلک یہ ہے، کہ جس قدر کوئی شی سنت میں وارد ہے، اسی پر اکتفا کیا جائے۔‘‘

اور وہ یہ ہے کہ ’’تعوذ‘‘ صرف پہلی رکعت میں پڑھی جائے ۔اور صاحب ’’منتقی الاخبار‘‘ نے بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے:’باب افتتاحُ الثانیة بالقراءة من غَیرِ تَعُوُّذٍ ، وَ لَا سَکتَةٍ ‘ یعنی دوسری رکعت کا آغاز ’’تعوذ‘‘ اور ’’سکتے‘‘ کے بغیر ہونا چاہیے۔ پھر بحوالہ ’’مسلم حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  کی روایت نقل کی ہے۔

’ کَانَ رَسُولُ اللّٰهِﷺ اِذَا نَهَضَ فِی الرَّکعَةِ الثَّانِیَةِ، اِفتَتَحَ القِرَائَةَ بِـ﴿اَلحَمدُ لِلّٰهِ رَبِّ العَالَمِینَ﴾ وَ لَم یَسکُت۔‘ صحیح مسلم،بَابُ مَا یُقَالُ بَیْنَ تَکْبِیرَةِ الْإِحْرَامِ وَالْقِرَاءَةِ،رقم:۵۹۹

یعنی ’’رسول اﷲﷺ جب دوسری رکعت میں اُٹھ کھڑے ہوتے تو بلاخاموشی﴿ اَلحَمدُ لِلّٰهِ رَبِّ العَالَمِینَ﴾ سے قرأت کا افتتاح کرتے۔‘‘

 اس حدیث کی شرح میں امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’ وَالحَدِیثُ یَدُلُّ عَلٰی عَدَمِ مَشرُوعِیَّةِ السَّکتَةِ قَبلَ القِرَائَةِ فِی الرَّکعَةِ الثَّانِیَّةِ۔ وَ کَذَالِكَ عَدَمُ مَشرُوعِیَّةِ التَّعَوُّذِ فِیهَا ، وَ حُکمُ مَا بَعدَهَا مِنَ الرَّکعَاتِ حُکمُهَا ‘نیل الأوطار :۲۸۰/۲

یعنی حدیث ہذا اس بات پر دال ہے کہ دوسری رکعت کی قرأت سے پہلے ’’سکتہ‘‘ غیر مسنون ہے۔ اسی طرح اس میں ’’تعوذ‘‘ پڑھنی بھی غیر مشروع ہے اور بعد والی رکعتوں کا وہی حکم ہے جو اس رکعت کا حکم ہے۔ لہٰذا زیادہ واضح بات یہی معلوم ہوتی ہے، کہ ’’تعوذ‘‘ صرف پہلی رکعت میں پڑھی جائے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:394

محدث فتویٰ

تبصرے