السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
الاعتصام کی گزشتہ اشاعت میں آپ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ ’تعوُّذ، کے الفاظ ’أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیمِ ‘ مرفوع روایت سے ثابت نہیں۔ البتہ مرسل طریق سے ثابت ہیں۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ مثلاً ’’بخاری و مسلم شریف‘‘ میں واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ :
’ اِسَتَبَّ رَجُلَانِ عِندَ النَّبِیِّﷺ فَجَعَلَ اَحَدُهُمَا یَغضَبُ، وَ یَحمَرُّ وَجهُهٗ، وَ یَنتَفِخُ اَودَاجُهٗ فَنَظَرَ اِلَیهِ النَّبِیُِّ ﷺ۔ فَقَالَ: اِنِی لَاعَلَمُ کَلمَةً لَو قَالَهَا، لَذَهَبَ دَاعَنهُ اَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّحِیمِ ‘ انتهیٰ" صحیح البخاری، بَابُ مَا یُنْهَی مِنَ السِّبَابِ وَاللَّعْنِ ، رقم:۶۰۴۸
اس کے علاوہ سورہ ’’نحل‘‘ کی آیت کریمہ﴿وَ اِذَا قَرَأَتِ القُراٰن فَاستَعِذ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیمِ﴾(النحل:۹۸) میں ارسال وغیرہ کا سوال نہیں۔ مزید برآن اگر یہ سوال ہو کہ ’’صحیحین‘‘ والے واقعہ اورقرآنی آیت میں نماز کا ذکر نہیں تو اس کا جواب امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ وَلَا شَکَّ اَنَّ الاٰیَةَ تَدُلَّ عَلٰی مَشرُوعِیَةِ الاِستِعَاذَةِ قَبلَ القِرَائَةِ، وَ هِیَ اَعَمُّ مِن اَن یَکُونَ خَارِجَ الصَّلٰوةِ، اَو دَاخِلَهَا ‘ (نیل الأوطار:۲۰۵/۴)
نیز مفسرین کرام، مثلاً حافظ ابن کثیر ، الجامع لأحکام القرآن قرطبی، امام بغوی، خازن ، درمنثور، وحیدی تفہیم القرآن ، تفسیر عثمانی، ترجمہ و تفسیر مولانا عبد الستار دہلوی اور اگر امام شوکانی رحمہ اللہ کی تائید کو شامل کرلیا جائے تو ’ تِلکَ عَشَرَۃٌ کَامِلهَ‘ یہ سب مفسرین ’أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیمِ فِی الصَّلٰوةِ ‘ کے قائل ہیں اور جو ’’تعوذ‘‘ آپ نے ’’سنن‘‘ وغیرہ سے تحریر فرمایا ہے۔ وہ بھی مسنون ہے۔ بہرحال اگر میری رائے میں کوئی غلطی ہو تو آپ اصلاح فرمادیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
محترم مولانا عبد الواحد اظہر بعد از سلام گزارش ہے، کہ میں آپ کا بے حد ممنون ہوں کہ آپ نے میرے فتویٰ پر نقد فرمایا: جزاکم اﷲ خیراً۔ عرض ہے بلاشبہ ’’تعوذ‘‘ کے الفاظ ’ أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیمِ ‘خارِج نماز ثابت ہیں۔
جس طرح کہ ’’صحیحین‘‘ کے مذکورہ قصہ میں ’’نص‘‘ موجود ہے۔ اگر میں نے نفی عام کردی ہے تو مجھ سے ذھول ہوا ہے۔ سورۃ ’’النحل‘‘ کی آیت کریمہ میں وارد الفاظ کا تو کوئی بھی انکار نہیں کرتا۔ ’’تعوذ‘‘ کی جملہ شکلوں میں یہ الفاظ موجود ہیں۔ یہاں صرف یہ مسئلہ زیرِبحث ہے، کہ بطورِ نصِّ نبوی نماز میں کونسے کلماتِ تعوذ ثابت ہیں۔ جواب اس کا یہ ہے، کہ جبیر بن مطعم( رضی اللہ عنہ ) کی روایت میں ہے:
’ أَعُوذُ بِاللّٰهِ السَّمِیعِ العَلِیمِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیمِ مِن نَفخِهٖ، وَ نَفثِهٖ وَهَمَزِهٖ ‘سنن أبی داؤد،بَابُ مَا یُسْتَفْتَحُ بِهِ الصَّلَاةُ مِنَ الدُّعَاء ِ،رقم:۷۶۴
اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے:
’ أَعُوذُ بِاللّٰهِ السَّمِیعِ العَلِیمِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیمِ مِن هَمزِهٖ ، وَ نَفخِهٖ، وَ نَفَثِهٖ ‘سنن أبی داؤد،بَابُ مَنْ رَأَی الِاسْتِفْتَاحَ بِسُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ،رقم:۷۷۵
لیکن ’أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الرَّجِیمِ‘ کلمات والی روایت ’’مرسل حسن‘‘ ہے۔ ملاحظہ ہو! التلخیص الحبیر:۱/۲۳۰۔ اور امام شوکانی رحمہ اللہ نے جو کچھ بیان فرمایا ہے: اس کا مفہوم تو صرف یہ ہے، کہ قرأت سے قبل ’’استعاذہ‘‘ مشروع ہے، بحالتِ نماز ہو یا اس کے علاوہ۔ اس کا تو کوئی بھی انکار نہیں کرتا۔ سبھی مشروعیت کے قائل ہیں۔ پھر ظاہر ہے، جملہ مفسرین کے اقوال بھی نصِّ شریعت کے تابع ہونے چاہئیں۔علیحدہ ان کی کوئی حیثیت نہیں۔مزید کوئی ملاحظات ہوں تو مستفید فرمائیں۔ شکریہ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب