السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز شروع کرنے سے پہلے زبان سے نیت کرنا کیا ضروری ہے ؟ بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے حضورﷺ سے ثابت نہیں اور بعض احباب کہتے ہیں کہ پہلے زبان سے نیت کرنا ضروری ہے۔ تفصیل سے جواب دیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عربی زبان میں لفظِ نیت کے معنی ’’قصد و ارادہ‘‘ کے ہیں۔ ظاہر ہے کہ قصداور ارادہ دل کا فعل ہے اور اہلِ شرع نے اس کی تعبیر یوں کی ہے:’ تَعَلُّقُ القَلبِ نَحوَ الفِعلِ إِبتِغَاء لِمَرضَاة اللّٰہِ ۔‘ یعنی ’’اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی خاطر دل کو کسی فعل و عمل کے متعلق کر دینے کا نام نیت ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہواکہ زبانی کلامی کے بجائے نیت صرف دل ہی سے ہونی چاہیے۔ پھر نبی اکرمﷺ کی نماز کی جملہ تفصیل حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔کسی ایک بھی روایت سے ثابت نہیں ہو سکا، کہ آپﷺ نے زبانی ’’نیت‘‘ کا اظہار کیا ہو۔ بلکہ صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
’ کَانَ یَفتَتِحُ الصَّلٰوةَ بِالتَّکبِیرِ ، وَ القِرَاءَةَ بِالحَمدِ لِلّٰهِ رَبِّ العَالَمِینَ ۔‘ صحیح مسلم،بَابُ مَا یَجْمَعُ صِفَةَ الصَّلَاةِ وَمَا یُفْتَتَحُ بِهِ …الخ،رقم:۴۹۸
یعنی ’’نبی اکرمﷺ ’’اَللّٰہُ اَکبَرُ‘‘سے نماز شروع کرتے اور قرأت کا آغاز’’ اَلحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ العَالَمِینَ‘‘ سے کرتے۔‘‘
اور اعرابی والی روایت میں ہے:
’ اِذَا قُمتَ إِلَی الصَّلٰوةِ فَکَبِّر، ثُمَّ اقرَأ مَا تَیَسَّرَ مَعَكَ مِنَ القُراٰنِ ۔‘ صحیح مسلم،باب: اقْرَأْ مَا تَیَسَّرَ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ،رقم:۳۹۷
یعنی ’’جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو تکبیر کہہ،۔ پھر بآسانی قرآن سے جو پڑھ سکتے ہو، پڑھو۔‘‘
ایک اور روایت میں الفاظ یوںہیں:
’ تَحرِیمُهَا التَّکبِیرُ، وَ تَحلِیلُهَا التَّسلِیمُ ۔‘ سنن أبی داؤد،بَابُ الْإِمَامِ یُحْدِثُ بَعْدَ مَا یَرْفَعُ رَأْسَةُ مِنْ آخِرِ الرَّکْعَةِ،رقم:۶۱۸
یعنی ’’تکبیر سے نماز میں داخل ہوتا ہے اور سلام سے فارغ ہوتاہے۔‘‘
ان نصوص سے معلوم ہوا کہ زبانی ’’نیت‘‘ کا شرع میں کوئی وجود نہیں۔ بعد کے اَدوار میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ائمہ عظام تک کوئی فرد بھی اس بات کا قائل نظر نہیں آتا۔ بلکہ مولانا محمد عبد الحی حنفی ’’آکام النفائس‘‘ میں رقمطراز ہیں:
’’ زبانی ’’نیت‘‘ کا مسئلہ مجھ سے بہت دفعہ پوچھا گیا، کہ آیا یہ رسول اﷲ ﷺ اور انکے اصحاب سے ثابت ہے یا نہیں؟ اور آیا شرع میں اس کی کوئی اصل بھی ہے؟ تو میں نے یہی جواب دیا، کہ نہ تو شارع ہی سے ثابت ہوا، اور نہ ان کے صحابیوں میں سے کسی ایک سے ثابت ہوا۔‘‘
اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ زاد المعاد میں فرماتے ہیں :کہ رسول اﷲﷺ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ’’ اللّٰہ اَکبر‘‘فرماتے اور اس سے پہلے کچھ نہ فرماتے اور نہ یوں کہتے، کہ میں فلاں نماز کی چار رکعت کعبہ کی طرف منہ کرکے امام یا مقتدی ہو کر پڑھتا ہوں اور نہ اداء یا قضاء یا فرض کا نام لیتے۔ جب کہ یہ سب بدعات ہیں۔ کسی نے آپ سے نقل نہیں کیا، نہ سندِ صحیح سے، اور نہ سندِ ضعیف سے ،نہ مسند سے ، اور نہ مرسل سے۔ بلکہ آپ کے صحابہ( رضی اللہ عنہم ) میں سے بھی کسی سے منقول نہیں ہوا۔اور تابعین میں سے بھی کبھی کسی نے اس کو مستحب نہیں کہا اور نہ چاروں اماموں نے‘‘ علامہ موصوف کی اس عبارت کو صاحبِ ’’مرقاۃ‘‘ علامہ ملا علی قاری حنفی نے بھی ’’مرقاۃ‘‘ میں نقل کیا ہے اور فقیہ ابن الہمام حنفی ’’ فتح القدیر‘‘، ’’شرح ہدایہ‘‘ میں فرماتے ہیں: کہ بعض حُفَاظِ حدیث نے کہا ہے، کہ رسول اﷲﷺسے نہ تو صحیح طریق سے ثابت ہے، اور نہ ضعیف سے، کہ آپ شروع نماز کے وقت کہتے ہوں، کہ میں فلاں نماز پڑھتا ہوں اور نہ تابعین میں سے کسی سے ثابت ہوا۔ بلکہ آپ سے تو یہی منقول ہے کہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ’’اَللّٰہُ اَکبَرُ‘‘ فرماتے۔ لہٰذا یہ بدعت ہے۔
جملہ نقول سے مقصود صرف یہ ہے، کہ نماز شروع کرنے سے پہلے زبانی کلامی نیت کا شریعت میں کوئی وجود نہیں۔ بہرصورت اس سے احتراز ضروری ہے۔ حدیث میں ہے:
’ مَن أَحدَثَ فِی أَمرِنَا هٰذَا مَا لَیسَ مِنهُ فَهُوَ رَدٌّ ‘صحیح البخاری بَابُ إِذَا اصطَلَحُوا عَلَی صُلحِ جَورٍ فَالصُّلحُ مَردُودٌ،رقم:۲۶۹۷)
’’جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب