السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا کوئی نابالغ بچہ صرف حافظ قرآن ہونے کی بناء پر رمضان میں تراویح کی یا غیر رمضان میں نماز کی امامت کروا سکتاہے، جبکہ بالغ باشرع پختہ مشق حفاظ بھی موجود ہوں اور نابالغ حافظ نماز بے قاعدگی سے ادا کرتا ہو؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نابالغ باشعور بچہ اہلیت کی بنیاد پر امامت کرا سکتا ہے۔ صحیح بخاری وغیرہ میں عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کا قصہ اس امر کی واضح دلیل ہے۔ اس کا اپنا بیان ہے کہ ’فَکُنتُ اَحفَظُ ذٰلِك الکَلَامَ‘ ’’ جو کلام لوگ نقل کرتے، میں اسے یاد کر لیتا۔
صحیح البخاری،،رقم:۴۳۰۲
سنن ابی دائود کی روایت میں ہے کہ
’ کُنتُ غُلَامًا حَافِظًا، فَحَفِظتُ مِن ذٰلِكَ قُراٰنًا کَثِیرًا ‘ سنن أبی داؤد،بَابُ مَنْ أَحَقُّ بِالْإِمَامَةِ،رقم:۵۸۵
’’ میں یاد کرنے والا بچہ تھا۔ میں نے بہت سارا قرآن اس طرح (لوگوں سے سُن سُن کر) یاد کر لیا تھا۔‘‘
بعض حنفیہ وغیرہ نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ اس کی امامت کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا تھا۔ لہٰذا یہ واقعہ قابل ِ حجت نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ زمانۂ وحی میں کسی واقعے کا وقوع پذیر ہونا، اور ہوتے رہنا، جواز کی دلیل ہے۔ حضرت ابوسعید اور جابر رضی اللہ عنہما نے عَزَل کے جواز پر دلیل اس امر سے قائم کی کہ عہد ِ نبوت میں عَزَل ہوتا تھا، اور اس سے روکا نہیں گیا۔ اگر یہ فعل ناجائز ہوتا تو اللہ اپنے نبی کو اس بات سے آگاہ فرما دیتا {وَمَا کَانَ رَبُّکَ نَسِیًّا} جس طرح بحالت ِ نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی نازل ہوئی کہ جوتے میں گندگی لگی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اتار دیا۔ اسی طرح معاملہ یہاں بھی ہوسکتا تھا۔ لہٰذا عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کو امامت سے منع نہ کرنا جواز کی دلیل ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! مرعاۃ المفاتیح (۲؍۱۱۲تا ۱۱۴)
حضرت عمروبن سلمہ رضی اللہ عنہ فرض نماز میں امام تھے۔ وتر اور تراویح تو فرضوں کی نسبت معمولی شئی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :ہم (عورتیں) معلّموں سے نابالغ لڑکے لاکر ان کو امام بنا لیتیں۔ وہ ہم کو ماہِ رمضان میں نماز پڑھاتے، ہم ان کو (بطورِ خدمت) بھنا ہوا گوشت اور گندم کی روٹی کھلا دیا کرتی تھیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ نابالغ بچے گھروں میں عورتوں کو تراویح پڑھاتے تھے۔ ابن شہاب زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:‘‘نابالغ بچے جو نماز پڑھنا اور قرآن پڑھنا جانتے تھے، وہ رمضان اور غیر رمضان میں لوگوں کو نمازیں پڑھاتے تھے‘‘۔ (قیام اللیل:صفحہ۱۷۴ باب إمامۃ الغلام الادرلم یحتلم فی رمضان وغیرہ، تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو: مرعاۃ المفاتیح (۲؍۱۱۲ تا ۱۱۴)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب