سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(429) زنا کار امام کی اقتداء میں نماز کا حکم

  • 24439
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 887

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک فاضل عالم دین جس پر زناکاری کا الزام ہو اور مختلف اوقات میں ایک سے زیادہ لڑکیوں (عورتوں) سے بد فعلی کرتے ہوئے دیکھا گیا ہو اور ہر بار ایک دو معززین اس فعل قبیح کے چشم دید گواہ ہوں اور بڑھتے بڑھتے پچاس سے زیادہ دیندار پکے مسلمان اس کے گواہ ہو جائیں تو آیا ایسا امام ، امامت، نکاح،یا جنازہ و رسومات ِ دینی ادا کرنے کا اہل ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرطِ صحت سوال مذکور شخص امامت کے لائق نہیں۔ اسے فوراً منصب ہذا سے معزول کردینا چاہیے۔ سنن ابوداؤد میں حدیث ہے: ایک شخص نے لوگوں کو نماز پڑھاتے وقت قبلہ کی طرف تھوک دیا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم    دیکھ رہے تھے۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم    نے فرمایا: کہ یہ شخص تمھیں پھر نماز نہ پڑھائے۔ اس شخص نے اس واقعہ کے بعد ان لوگوں کو پھر نماز پڑھانا چاہا، تو انھوں نے اس کو روک دیا، اور اس کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم   کا فرمان سنایا۔ اس نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم    کے پاس جا کر اس امر کو بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم    نے فرمایا :ہاں۔ سائب بن خلاد راوی کہتا ہے کہ مجھے یہ گمان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم    نے اس کو فرمایا: کہ تحقیق تو نے اﷲ اور اس کے رسول کو اذیت دی۔( سنن أبی داؤد،بَابٌ فِی کَرَاہِیَۃِ الْبُزَاقِ فِی الْمَسْجِدِ،رقم:۴۸۱) ابو داؤد اور منذری نے اس حدیث پر سکوت کیا ہے۔

جب تھوڑی سی بات پر اس شخص کو امامت سے معزول کردیاگیا۔ تو مرتکب کبیرہ گناہ، زنا کار کو فوراً امامت سے معزول کردینا چاہیے۔ صحیح بخاری میں ہے خلیفہ ثانی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ   نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ   کو بسبب بیجا شکایت (بغیر شکایت) اہل کوفہ کی امامت و امارت کوفہ سے بسبب خوفِ فتنہ و فساد کے یا رعایت قوم کے (لوگوں کا لحاظ کرکے) معزول کردیا تھا۔ صحیح البخاری،بَابُ وُجُوبِ القِرَاء َۃِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ فِی الصَّلَوَاتِ کُلِّہَا، …الخ،رقم:۷۵۵

اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ جس شخص کو امرِدینی کے سبب مقتدی نہ چاہتے ہوں، اُسے امامت سے علیحدہ ہوجانا چاہیے۔ابوداؤد اور ابن ماجہ میں حدیث ہے کہ تین شخصوں کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ ان میں سے ایک وہ آدمی ہے، جو قوم کا امام ہے، لیکن نمازی اُسے پسند نہیں کرتے۔ سنن أبی داؤد،بَابُ الرَّجُلِ یَؤُمُّ الْقَوْمَ وَہُمْ لَہُ کَارِہُونَ ،رقم:۵۹۳

اور ایک روایت میں ہے کہ اگر تمھیں اپنی نمازوں کا قبول ہونا پسند ہے، تو چاہیے کہ تم میں سے بہتر اور پسندیدہ آدمی تم کو نماز پڑھائے۔ اس لیے کہ امام تمہارے اور اﷲ کے درمیان ایلچی ہیں۔

اس حدیث کی شاہد ابن عباس رضی اللہ عنہما  کی حدیث ہے جس میں ہے کہ جو تمہارے درمیان برگزیدہ اور بہتر ہو، اس کو امام بنایا کرو۔ کیونکہ وہ تمہارے اور اﷲ کے درمیان ایلچی ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ  کے نزدیک غیر عادل کی اقتداء میں نماز درست نہیں۔

علامہ شوکانی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: جھگڑا تو امام غیر عادل کی جماعت کی صحت میں ہے، کراہت میں توکوئی اختلاف ہی نہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ محض ذاتی اور دنیاوی عناد پر کسی کو امامت سے ہٹانا درست نہیں۔ ما بہ النزاع(موجودہ اختلافی معاملہ) میں بظاہر یہ معاملہ نہیں۔ (واﷲ اعلم بحقیقۃ الحال والیہ المرجع والمآب)

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:374

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ