سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(402) ’’کیا ایک امام دوبار جماعت کروا سکتا ہے؟‘‘ ایک تعاقب

  • 24412
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-18
  • مشاہدات : 1335

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

راقم ایک عرصے سے آپ کے علم و فضل سے استفادہ کر رہا ہے اور مجلہ الاعتصام کا ۱۸ سال سے مستقل قاری ہے، آپ کے کالم ’’احکام و مسائل‘‘ کونہایت دلچسپی سے پڑھتا ہے۔ الحمد ﷲ اس کے مطالعے سے بہت کچھ سیکھا اور جانا۔ جزاکم اللہ خیراً

۲۰۔جون ۲۰۰۳ء کا الاعتصام( ج:۵۵، شمارہ:۲۴) سامنے ہے جس کے صفحہ ۱۵پر قاری محمد منشاء عتیق بہاولنگری کے سوال بعنوان’’ کیا ایک امام دو بار جماعت کروا سکتا ہے؟ ‘‘کے جواب میں آپ نے فرمایا ہے: ’’ مسئلہ ھٰذا کی شرع میں مثال ملنا مشکل ہے ‘‘ پھر آپ نے حدیث ’’ امامت جبرائیل‘‘ کی جانب اشارہ کرکے اپنے موقف پر استدلال کیاہے…الخ …

مجھے اعتراف ہے کہ اس سلسلے میں راقم الحروف کی کوئی عرض درحقیقت سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ تاہم اپنی اصلاح کے لیے عرض ہے کہ مندرجہ ذیل احادیث کی بناء پر مسئلہ ہٰذا پر دلیل لی جاسکتی ہے۔

۱۔         امام ابو داؤد اپنی ’’سنن‘‘ میں( کِتَاب الصلٰوۃ: باب من قَالَ: یصلی بکل طائفۃ رکعتین کے تحت) حدیث نقل کرتے ہیں:

’حَدَّثَنَا عُبَیدُ اللّٰهِ بنُ مُعَاذٍ ، نَا الاَشعَثُ عَنِ الحَسَنِ عَن اَبِی بَکرَةَ قَالَ : ’صَلَّی النَّبِیُّ ﷺ فِی خَوفِ الظُّهرِ ،فَصَفَّ بَعضُهُم خَلفَهٗ، وَ بَعضُهُم بِاِزَاءِ العَدُوِّ، فَصَلّٰی رَکعَتَینِ، ثُمَّ سَلَّمَ۔ فَانطَلَقَ الَّذِینَ صَلَّوها مَعَهٗ، فَوَقَفُوا مَوقِفَ اَصحَابِهِم ۔ ثُمَّ جَآءَ اُولٰٓئِكَ فَصَلَّوا خَلفَهٗ ، فَصَلّٰی بِهِم رَکعَتَینِ، ثُمَّ سَلَّمَ۔ فَکَانَت لِرَسُولِ اللّٰهِ ﷺ اَربَعًا، وَلِاَصحَابِهٖ رَکعَتَینِ۔، وَ بِذٰلِكَ کَانَ یُفتِی الحَسَنُ۔ قَالَ اَبُو دَاوٗدَ : وَ کَذَلِكَ فِی المَغرِبِ یَکُونُ لِلإِمَامِ سِتُّ رَکَعَاتٍ ،وَ لِلقَومِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا… قَالَ اَبُو دَاوٗدَ : کَذٰلِكَ رَوَاَهُ یَحیَی بنُ اَبِی کَثِیرٍ عَن سَلمَةَ عَن جَابِرٍ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ… وَکَذٰلِكَ قَالَ سُلَیمَانُ الیَشکَرِی، عَن جَابِرٍ ، عَنِ النَّبِیِّﷺ ۔‘سنن ابی داؤد،بَابُ مَنْ قَالَ: یُصَلِّی بِکُلِّ طَائِفَةٍ رَکْعَتَیْنِ، رقم:۱۲۴۸

خلاصہ: ۱۔  آپ نے اصحاب کو دو حصوں میں تقسیم کرکے خوف کی صورت میں دو دو رکعت نماز پڑھائی اور ہر دو  رکعت پر سلام پھیرا۔

۲۔        حسن بصری اسی پر فتویٰ دیا کرتے تھے۔

۳۔        امام ابو داؤد فرماتے ہیں ، نماز مغرب بھی امام دو مرتبہ پڑھا سکتا ہے۔

۴۔        اسی کے ہم معنیٰ حدیث یَیحیَی بنِ اَبِی کَثِیرٍ، عَن سَلَمَة، عَن جَابِرٍ ؓ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ مروی ہے۔

۵۔        اور سُلَیمَانَ الیَشکَرِی ، عَن جَابِرٍ ، عَنِ النَّبِیِّ ﷺ سے بھی یہ حدیث مروی ہے۔

مزید حوالے: ’’مسند احمد‘‘ عن ابی بکرہ: (۴۹/۵) سنن نسائی کتاب صلوٰۃ الخوف میں أَشعث عن الحسن، عن أبی بکرۃ ، نیز’’باب اختلاف نیۃ الإِمام والمأموم‘‘ کے تحت قتادہ، عن الحسن، عن جابر، بن عبد اﷲ الخ

علامہ بدر الدین عینی شرح ’’سنن ابی داؤد‘‘ میں (۱۳۵/۵) رقمطراز ہیں:

’ سُلِیمَانَ بنِ قَیسِ الیَشکَرِی البَصَرِی رَوٰی عَن جَابِرِ بنِ عَبدِ اللّٰه ؓ… الخ قَالَ أَبُو ذُرعَةَ: بَصَرِی ثِقَةٌ۔ وَ قَالَ اَبُو حَاتِمٌ: جَالَسَ سُلَیمَانَ الیَشکَرِی جَابِرًا ، وَ سَمِعَ مِنهُ ، وَ کتب عنه صحیفة ۔ و توفی ۔ و بقیت الصحیفة عند امرأتِهٖ الخ‘

امام بغوی رحمہ اللہ  ’’شرح السنہ‘‘(۴/۲۸۳) میں اسی حدیث ابی بکرہ رضی اللہ عنہ  اور حدیث جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ   سے استدلال کرکے رقمطراز ہیں:

’ فَلَو أَنَّ الاِمَامَ صَلّٰی بِالطَّائِفَةِ الاُولٰی تَمَامَ الصَّلٰوةِ وَسَلَّمَ بِهِم، ثُمَّ صَلَّاهَا مَرَّةً اُخرٰی بِالطَّائِفَةِ الثَّانِیَةفَجَائِزٌ۔ رَوَاهُ أَبُو بَکرَةَ عَن رَسُولِ اللّٰهِﷺ … وَ رَوٰی عَن جَابِرٍ اَنَّ النَّبِیَّﷺ …الخ۔‘

امام ابو داؤد کی اشارہ کردہ عبارت ’’و کذٰلِکَ فی المغرب‘‘  کی مشارٌ الیہ حدیث ’’دارقطنی‘‘ (۴۸/۲) میں عن ابی بکرہ رضی اللہ عنہ   بایں الفاظ مروی ہے:

’ اَنَّ النَّبِیَّ ﷺ صَلّٰی بِالقَومِ صَلَاةَ المَغرِبِ ثَلَاثَ رَکَعَاتٍ۔ ثُمَّ انصَرَفَ۔ وَ جَاءَ الآخِرُونَ، فَصَلّٰی بِهِم ثَلَاثَ رَکَعَاتٍ۔ وَ کَانَت لَهٗ سِتُّ رَکَعَاتٍ۔ وَ لِلقَومِ ثَلَاثُ رَکَعَاتٍ ‘ انتهی سنن الدارقطنی،بَابُ صِفَةِ صَلَاةِ الْخَوْفِ وَأَقْسَامِهَا،رقم:۱۷۸۳

صاحب عون المعبود امام صاحب کے قول ’’و کَذٰلِکَ‘‘ کی شرح میں(۹۰/۴) تحریر فرماتے ہیں: ’’یَعنِی فِی غَیرِ المَغرِبِ‘‘ بھی جائز ہے۔ پھر امام ابو داؤد مشارٌ الیہ حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:ـ

 وَهُوَ عِندَ مُسلِمٍ بِلَفظٍ… ’ فَصَلّٰی بِطَائِفَةٍ رَکَعَتَینِ، ثُمَّ تَأَخَّرُوا ، فَصَلّٰی بِالطَّائِفَةِ الاُخرٰی رَکعَتَینِ، فَکَانَت لِرَسُولِ اللّٰهِ ﷺاَربَعُ رَکَعَاتٍ وَ لِلقَومِ رَکعَتَانِ ۔‘ ( شرح السنة بغویؒ ۲۸۷/۴)صحیح مسلم :کتاب المغازی،باب صلاة الخوف، رقم:۸۴۳،  صحیح البخاری ، کتاب المغازی، بَابُ غَزْوَةِ ذَاتِ الرِّقَاعِ،رقم:۴۱۳۶

’’ آپ نے فوج کو دو حصوں میں بانٹ کر دو دو رکعتیں پڑھائیں۔ لوگوں کی دو دو رکعت ہوئیں اور آپ کی چار رکعت۔ ‘‘

خلاصۂ کلام: میرے خیال میں حسن بصریسوال کی معنعن، یا قتادہ کے سماع ’’عن سلیمان الیشکری‘‘ کے متعلق محدثین کرام نے جو کلام کیا ہے ،وہ حدیثِ’’بخاری و’’ مسلم کی وجہ سے غیر مضر ہو جاتا ہے۔ صاحب ’’تنقیح الرواۃ‘‘ (۲۶۸/۱) کا میلان بھی اسی جانب معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ رقم طراز ہیں کہ:

’ وَ فِی البَابِ أَحَادِیثُ عِندَ مُسلِمٍ وَغَیرِهِ، فَبَعضُهَا صَحِیحَةٌ، وَ فِی اِسنَادِ بَعضِهَا کَلَامٌ ، وَ یَشُدُّ بَعضُهَا بَعضًا۔‘

’’ اس باب میں مسلم وغیرہ میں بھی احادیث آئی ہیں۔ بعض صحیح ہیں، اور بعض میں کلام ہے۔ البتہ مل کر تقویت پا جاتی ہیں۔‘‘ ( راقم کے نزدیک صحیح بخاری میں بھی روایات ہیں)

حاصلِ مطالعہ: یہ ہے کہ ’’ ایک امام دو بار جماعت کروا سکتا ہے ‘‘…’ مسئلہ ھٰذا کی شرع میں مثال ملنا مشکل نہیں ہے۔ (واﷲ اعلم وعلمہ اتم)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

محترم حافظ صاحب! مسئلہ ہٰذا کی توضیح پر میں آپ کا بے حد شکر گزار ہوں۔ آپ نے جو استدلال پیش فرمایا ہے، اس میں تردُّد صرف اس اعتبار سے باقی رہتا ہے کہ أصلاً ’’صلوۃِ خوف‘‘ کی بناء ضرورت و حاجت اور تخفیف پر ہے۔ جیسے صلوٰۃ خوف میں ایک رکعت پڑھنی جائز ہے۔ بلکہ شدتِ جنگ میں صرف اشارہ اور تکبیر ہی کافی ہو سکتی ہے۔جب کہ عام حالات میں شدتِ جنگ اس عمل کے جواز کا فتویٰ نہیں۔ اسی طرح ممکن ہے کہ لاحق ضرورت کی بناء پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   نے فعل ھٰذا کیا ہو ؟ اسی وجہ سے میں نے اس دلیل سے صرفِ نظر کیا تھا۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:361

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ