سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(401) ایک امام کا دوبار جماعت کروانا

  • 24411
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1084

سوال

(401) ایک امام کا دوبار جماعت کروانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا ایک امام دوبارہ جماعت کروا سکتا ہے ؟ میں ایک مسجد کا مستقل امام و خطیب ہوں، اتفاق سے میں شہر گیا وہاں نماز کا وقت ہو چکا تھا،انھوں نے مجھے نماز پڑھانے کو کہا ،میں نے وہاں نماز پڑھائی پھر واپس اپنے گاؤں پہنچا تو وہاں میرا انتظار تھا میں نے وقت پر پہنچ کر وہاں بھی دوبارہ نماز پڑھائی، اس پر کچھ لوگوں نے اعتراض کیا تو میں نے دلیل کے طور پر یہ حدیث پیش کی کہ ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی مسجد میں آیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اس پر کون صدقہ کرے گا؟ ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے آنے والے کے ساتھ باجماعت نماز پڑھی۔(ابوداؤد، کتاب الصلاۃ) سنن أٔبی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب الجمع فی المسجد مرتین،رقم:۵۷۴، سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاء َ فِی الجَمَاعَۃِ فِی مَسْجِدٍ قَدْ صُلِّیَ فِیہِ مَرَّۃً،رقم:۲۲۰

اس پر ساتھیوں نے اعتراض کیا کہ وہ شخص پہلے مقتدی تھا۔ امام نہیں تھا۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ والی حدیث پر بھی وہ یہ اعتراض کرتے تھے کہ معاذ بھی پہلے امام نہیں تھے۔ بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم    کے مقتدی تھے۔ آپ وضاحت کرکے مستفید فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسئلہ ہذا کی شرع میں مثال ملنا مشکل ہے ، البتہ فرضیتِ صلوٰۃ کی ابتداء میں امامتِ جبرائیل سے اس بات کی نشان دہی ہوتی ہے کہ نماز کا امام ایک دن کی نماز میں دو دفعہ امام نہ بنے۔ حضرت جبرائیل اسی روز تاخیر کے ساتھ دوبارہ بطورِ امام رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم    کو نماز پڑھا سکتے تھے بالخصوص جب کہ ان کی نفلی نماز تھی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ دوسرے روز آخری وقت میں نماز پڑھائی۔

تاہم اگر کوئی سبب اس بات کا متقاضی ہو، تو دوسری مرتبہ جماعت کروانا جائز ہی معلوم ہوتا ہے۔ مثلاً مقتدیوں میں امامت کی اہلیت نہیں ہے یا وہ سب گونگے وغیرہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ عام حالات میں اہلیت کے ساتھ ساتھ سلیم الاعضاء (اعضاء کا صحیح) ہونا تقدیم کا باعث ہے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

کتاب الصلوٰۃ:صفحہ:361

محدث فتویٰ

تبصرے