السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا عورت ، عورتوں کی امامت کرا سکتی ہے ؟ خاص طور پر نمازِ تراویح میں قرآن سنانے کے لیے عورتوں کی جماعت کرا سکتی ہے ؟ اور اس کا طریقہ کیا ہے ؟ یعنی امامت کرانے والی عورت مرد امام کی طرح آگے کھڑی ہو گی یا درمیان صف میں؟ مدلل جواب سے نوازیں انتہائی شکر گزار ہوں گا۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
’’سنن ابی داؤد‘‘ میں حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمّ ورقہ بنت عبد اﷲ بن الحارث کو حکم دیا تھا کہ
’أَن تُؤُمَّ اَهلَ دَارِهَا‘ یعنی ’’ اپنے اہل بیت کی امامت کرائے۔‘‘ سنن أبی داؤد، بَابُ إِمَامَۃِ النِّسَائِ، رقم:۵۹۲، السنن الکبرٰی للبیہقی، بَابُ إِثْبَاتِ إِمَامَۃِ الْمَرْأَۃِ، رقم:۵۳۵۳
عون المعبود(۲۳۰/۱) میں ہے کہ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ عورتوں کی امامت اور ان کی جماعت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے صحیح ثابت ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عورتوں کی امامت فرض اور تراویح میں کرائی تھی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’تلخیص الحبیر‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عورتوں کی امامت کرائی اور ان کے درمیان میں کھڑی ہوئیں۔‘‘( مصنف عبد الرزاق الصنعانی،بَابُ الْمَرْأَۃِ تَؤُمُّ النِّسَاء َ،رقم:۵۰۸۷) اس روایت کو عبد الرزاق نے بیان کیا ہے۔ ان کے طریق سے ’’دارقطنی‘‘ اور ’’بیہقی‘‘ میں ابو حازم ’عَن رَائِطَۃَ الحَنفِیَّۃِ ‘ اور حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ انھوں نے فرض نماز میں عورتوں کی امامت کرائی اور وہ ان کے درمیان تھیں۔ ’’ابن ابی شیبہ‘‘ اور حاکم میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا عورتوں کی امامت کراتیں، اور صف میں ان کے ساتھ کھڑی ہوتیں اور اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ انھوں نے عورتوں کی امامت کرائی اور درمیان میں کھڑی ہوئیں تھیں۔ المستدرک للحاکم،بَابٌ فِی فَضْلِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ،رقم:۷۳۱
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اَلدرایۃ میں ذکر کیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رمضان کے مہینے میں عورتوں کی امامت کراتی تھیں اور ان کے درمیان کھڑی ہوتیں۔
علامہ شمس الحق فرماتے ہیں: ان احادیث سے معلوم ہوا کہ عورت جب عورتوں کی امامت کرائے تو ان کے درمیان کھڑی ہو، آگے کھڑی نہ ہو اور ’’سبل السلام‘‘ میں ہے کہ یہ حدیث اس امر کی دلیل ہے کہ عورت کا اپنے گھر والوں کی امامت کرانا درست ہے۔ اگرچہ ان میں آدمی ہو۔ اس لیے کہ اُمّ ورقہ کا مؤذن ایک بوڑھا آدمی تھا جس طرح کہ روایت میں ہے ۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ اس کی اور اپنے غلام کی اور لونڈی کی بھی امام تھیں۔(سنن أبی داؤد، بَابُ إِمَامَۃِ النِّسَائِ، رقم:۵۹۲، السنن الکبرٰی للبیہقی، بَابُ إِثْبَاتِ إِمَامَۃِ الْمَرْأَۃِ، رقم:۵۳۵۳) ابو ثور، مزنی اور طبری کے نزدیک عورت کی امامت درست ہے۔ البتہ جمہور اس کے مخالف ہیں۔
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ عورت کو فرض نماز کے علاوہ تراویح اور نوافل میں بھی امامت درمیان میں کھڑے ہوکر کرانی چاہیے۔(واﷲ اعلم)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب