السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے مولوی صاحب کہتے ہیں کہ جو آدمی پانچوں نمازیں باجماعت ادا کرتا ہو، وہ کبھی کسی مجبوری کی وجہ سے جماعت سے رہ جائے تو دوسری جماعت کروا سکتا ہے ورنہ دوسری جماعت ہر دیر سے آنے والا نہیں کروا سکتا۔ کیا یہ موقف درست ہے اور دوسری جماعت کروانے کے لیے دوبارہ تکبیر کہنی چاہیے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دوسری جماعت کروانا جائز ہے۔ صحیح بخاری کے’’ترجمۃ الباب‘‘میں ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ ایک مسجد کی طرف آئے۔ وہاںجماعت ہو چکی تھی۔ اذان اور اقامت کہہ کر جماعت کرائی۔’بَابُ فَضلِ صَلٰوۃِ الجَمَاعَۃِ۔‘
اس سے معلوم ہوا کہ دوسری جماعت کے لیے اقامت بھی ہے۔ واضح ہو مومن کی شان ہے، کہ وہ بلاوجہ جماعت سے لیٹ نہیں ہوتا۔ ممکن ہے مولوی صاحب کا مقصود ترغیب و ترہیب ہو۔ ورنہ ہر دو صورت میں جواز میں کوئی کلام نہیں ملاحظہ ہو! ترمذی:’بَابُ مَا جَائَ فِی الجَمَاعَۃِ فِی مَسجِدٍ قَد صُلَّیَ فِیہِ مَرَّۃً۔‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب