السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
چند آدمی عشاء کی نماز کے بعد آئے اور انھوں نے جماعت ثانیہ شروع کردی۔ تھوڑی دیر بعد تراویح کی جماعت کھڑی ہو گئی۔ کیا تراویح کی جماعت کھڑی ہو نے کے بعد فرضی نماز پڑھنے والوں کو نماز توڑ کر تراویح پڑھنے والوں کے ساتھ مل کر نمازِ عشاء پڑھنا واجب تھا یا وہ اپنی جماعت برقرار رکھتے؟ سنا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پہلے الگ الگ ٹولیوں کی شکل میں تراویح ایک ہی مسجد میں باجماعت پڑھتے تھے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر فرض پڑھنے والوں کو جماعت سے روکنا ناجائز ہے۔’’ جب اقامت ہو جائے تو فرضی نماز کے سوا اور کوئی نماز نہیں۔‘‘ اس حدیث میں لفظ’’المکتوبة‘‘ استعمال ہوا ہے۔ تراویح پڑھنے والوں کا اصرار کرنا کہ فرض پڑھنے والے ہمارے ساتھ شریک ہوں، درست معلوم نہیں ہوتا۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نمازِ عشاء کی جماعت ثانیہ (دوسری جماعت) والے بایں صورت نماز کو جاری رکھیں اور نمازِ تراویح پڑھنے والے اپنی جگہ مصروف رہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن آوازوں کے ٹکراؤ سے احتراز ہونا چاہیے، کیونکہ اس سے خشوع وخضوع میں فرق آتا ہے ،جو نماز کا مغز ہے اور اگر ایسی صورت نہ ہو، تو پھر فرضی نماز والے کو امام تراویح کی اقتداء میں نماز پڑھنی چاہیے۔ قصۂ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اس امر کی واضح دلیل ہے، جو صحیح احادیث میں موجود ہے، وہ مسجد نبوی میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں عشاء کی نماز ادا کرتے اور پھر اپنی قوم کی امامت کراتے تھے۔ بالفرض اگر کوئی عمداً اس صورت کو اختیار نہ کرتے ہوئے امام تراویح سے علیحدہ جماعت کرالے یا انفرادی طور پر نماز پڑھ لے تو نمازان شاء اﷲ درست ہو گی۔ قطعی ممانعت کا تصور صرف اس کے لیے ہے جس نے وہی فرض نماز پڑھنی ہو جسے امام پڑھا رہا ہے۔ نوافل یا تراویح کی علیحدہ علیحدہ کئی جماعتوں کی شکل ایک امام پر جمعِ عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے موجود تھی۔ جس کا کسی نے انکار نہیں کیا۔ آج کے دور میں بھی ایسی صورتیں ایامِ رمضان میں حرمین شریفین میں پیش آتی رہتی ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب