نماز مغرب کی دو رکعت سنت مسجد میں پڑھنا کیسا ہے؟ بعض کہتے ہیں یہ سنتیں مسجد میں پڑھی جائز نہیں، گھر میں پڑھنی چاہئیں۔
_________________________________________________
حدیث میں ہے:
اجعلوا فی بیوتکم ولا تتخذوھا قبوراً (مشکوٰۃ باب المساجد و موضع الصلوٰۃ فصل اوّل)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی نماز کا کچھ حصہ گھروں کے لیے بھی کرو‘‘
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ نوافل اور سنتیں مسجدوں کی بجائے گھروں میں پڑھنا افضل ہے اور مساجد میں جائز ہے۔ اس میں مغرب یا کسی دوسرے وقت کی کوئی خصوصیت نہیں سب کا یہی حکم ہے، صحا بہ کرام عہد نبوی میں مغرب کی سنتیں مسجد میں پڑھتے تھے، حدیث میں ہے:
عن عبد اللہ بن مغفل قال قال النبی صلی اللہ علیه وسلم: «صلوا قبل المغرب رکعتین صلوا قبل المغرب قال فی الثالثة کراھیة أن یتخذھا الناس سنة» (متفق علیہ)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ ارشاد فرمایا کہ نماز مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھو، تیسری مرتبہ فرمایا، جس کی مرضی ہو پڑھے، یہ اس لیے کہ لوگ اسے ضروری نہ سمجھ لیں۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ یہ دو رکعت جس قدر شوق اور کثرت سے پڑھتے تھے اس کا بیان حسب ذیل حدیث میں ہے:
عن أنس رضی اللہ عنه قال کنا بالمدینة فأذن لصلوٰة المغرب ابتداء روا السواری فرکعوا رکعتین حتی أن الرجل الغریب لیدخل المسجد فیحسب ان الصلوٰة قد صلیت من کثرة من یصلھا (رواہ مسلم، مشکوٰۃ باب السنن وفضلھا)
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم مدینہ منورہ میں تھے، مغرب کی نماز کے لیے جب مؤذن اذان کہتا تو لوگ مسجد کے ستون کی طرف لپکتے اور ستونوں کی طرف میں دو رکعت نفل پڑھتے، اور صحابہ کرام اس کثرت سے یہ نفل پڑھتے ، کہ کوئی اجنبی شخص مسجد میں داخل ہوتا، تو وہ خیال کرتا کہ مغرب کی نماز پڑھی گئی۔‘‘
یہ مسلم شریف کی روایت ہے۔ صحت کے لحاظ سے اس پر کوئی کلام نہیں، اس سے یہ مسئلہ ثابت ہو گیا کہ صحابہ کرام مغرب کی سنتیں مسجد میں پڑھا کرتے تھے۔ ورنہ یہ الفاظ کہ اجنبی آدمی گمان کرتا تھا کہ نماز پڑھی گئی ہے۔یہ بے معنی ہوں گے، اور ان کا کوئی مطلب نہ ہو گا۔ فافھم وتدبر (تنظیم اہل حدیث لاہور ج۱۸ ش۲۱)