السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مفترض کی مفترض کے ساتھ مسجد واحد میں بتکرارِ جماعت جائز ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اہل حدیث کی اکثر مساجد میں دیکھا گیا ہے، کہ ایک ہی نماز کی متعدد جماعتیں قائم ہوتی ہیں اور جماعت کرانے والوں کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے جو اپنے ذاتی شغل کو دعوت الی اﷲ(اذان) سے مقدم گردانتے ہیں۔ کبھی تو وہ چند گاہکوں کی امید میں دکان پر بیٹھے رہتے ہیں اور کبھی ٹی وی ڈرامے یا میچ پر نظریں جمائے رکھتے ہیں اور کبھی انھیں دوستوں کی محفل سے نماز کی خاطر اٹھنا گراں معلوم ہوتا ہے، اور وہ یہ سوچ کر کہ خیر ہے، دوسری یا تیسری جماعت کرالیں گے۔ پہلی یعنی حقیقی جماعت میں شمولیت سے محروم رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا سہارا یہ روایت بنی ہوئی ہے کہ
ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو ظہر کی نماز پڑھا چکے تھے، کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اے فلاں! تجھے جماعت سے کس چیز نے روکے رکھا؟
تو اس نے کوئی وجہ بیان کی۔ راوی بیان کرتا ہے، کہ اس نے نماز پڑھنی شروع کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی ہے، جو اس پر صدقہ کرے؟ اس طرح کہ اس کے ساتھ نماز ادا کرے۔ تو ایک آدمی اس کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔(رواہ احمد بحوالہ سبل السلام:۲/۳) السنن الکبرٰی للبیہقی،بَابُ الْجَمَاعَۃِ فِی مَسْجِدٍ قَدْ صُلِّیَ فِیہِ إِذَا لَمْ …الخ ،رقم:۵۰۱۲
اور اس کی تائید میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کا فعل پیش کیا جاتا ہے۔
’ اَنَّهٗ دَخَلَ مَسجِدًا قَد صَلَّوا فِیه،ِ فَأَمَرَ رَجُلًا فَاَذَّنَ بِهِم، وَ أَقَامَ فَصَلّٰی بِهِم جَمَاعَةً ‘ (رواه البیهقی بحواله تمام المنّة علی فقه السنّة)
’’ وہ مسجد میں داخل ہوئے جہاں نمازی نماز پڑھ چکے تھے تو انھوں نے ایک آدمی کو اذان دینے کا حکم دیا تو اس نے اذان اور تکبیر کہی پھر انھوں نے ان کو جماعت کرائی۔‘‘
بعض روایات میں ہے کہ آپ قریباً بیس آدمیوں کے ہمراہ بنو سلمہ سے گزرے جہاں نمازی جماعت کے ساتھ نماز ادا کر چکے تھے۔ تو آپ نے وہاں اذان کہلوائی اور جماعت کرائی۔
اگر معاملہ یہاں تک رہتا تو خیر تھی کہ اگر کوئی شرعی امر یا سفر درپیش آجائے تو دوبارہ جماعت کرالی جاتی۔ لیکن معاملہ یہاں تک پہنچ چکا ہے، کہ ہمارے اہلِ حدیث خیال کے تبلیغی دوست پیر محمد علی چشتی بیان کرتے ہیں کہ ہم افریقی ملک کے دورے پر تھے، کہ وہاں کی مساجد میں عجیب معاملہ دیکھنے میں آیا، کہ بعض دفعہ ظہر کی جماعت اذانِ عصر تک جا پہنچتی تھی اور عصر کی جماعت قریب مغرب جا پہنچتی وہ اس طرح کہ اصلی یا حقیقی جماعت سے جن نمازیوں کی رکعات رہ جاتی ہیں، وہ انھیں پورا کرنے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، تو اپنے میں سے کسی ایک مسبوق کو آگے دھکیل دیتے ہیں۔ وہ مسبوق ان کا امام بن جاتا ہے اور باقی مسبوق مقتدی بن جاتے ہیں۔ کسی کی ایک رکعت اور کسی کی دوتو کسی کی تین رکعات فوت ہوئی ہوتی ہیں، جب مسبوق امام سلام پھیرتا ہے تو جن کی رکعات امام کے ساتھ پوری ہو جاتی ہیں، وہ سلام پھیرتے ہیں اور جن کی رکعات باقی رہتی ہیں، وہ ادا کرنے کھڑے ہوتے ہیں، تو بعد میں وضو کرکے آنے والے نمازی ان مسبوقین میں کسی کو آگے دھکیل کر اپنا امام بناء لیتے ہیں، اور باقی مسبوقین کے ساتھ صف بناء لیتے ہیں۔ جب دوسرا مسبوق امام سلام پھیرتا ہے، تو بعد والے مسبوق مقتدی صاحبان کھڑے ہو کر اپنی رکعت پوری کرنے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ اتنے میں لیٹ ہو جانے والے دوسرے نمازی وضو کرکے ان کے پیچھے کھڑے ہوجاتے ہیں اور مسبوقین میں سے کسی کو آگے دھکیل کر یا باقی مسبوقین کو پیچھے کھینچ کر صف بناء لیتے ہیں۔ اس طرح جماعت کا یہ سلسلہ لگاتار عصر تک جاری رہتا اور عصر کی جماعت کا مغرب تک اور مغرب کا عشاء تک جاری رہتا اور سب کی دلیل صرف ایک ہی حدیث ہے کہ’’ أَلَا رَجُلٌ یَتَصَدَّقُ عَلٰی ھٰذَا فَیُصَلِّی مَعَه؟ ‘‘
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے آپ نے یہ بات کہی تھی۔ کیا انھوں نے بھی ساری زندگی ایسا طریقہ جاری رکھا ،کہ پانچوں وقتوں کی نمازوں کی کئی کئی جماعتیں کرواتے تھے۔ یا اسی طرح صدقے کرتے رہتے تھے جس طرح ہمارے افریقی مسلمان دوست کرتے ہیں، یا وہ جماعتِ اصلیہ سے ملتے تھے اور جو رہ جاتے تھے، وہ اپنی الگ نماز ادا کرتے تھے؟ اس سلسلے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اُسوہ اسی طرح ہمارے سامنے ہے، کہ وہ اگر جماعت سے رہ جاتے تو دوبارہ جماعت کھڑی کرنے کی بجائے الگ الگ نماز ادا کرلیتے۔حضرت امام حسن بصری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ
’ کَانَ اَصحَابُ مُحَمَّدٍ اِذَا دَخَلُوا المَسجِدَ، وَ قَد صُلِّیَ فِیهِ صَلَّوا فَُرادیٰ ‘مصنف ابن ابی شیبة،مَنْ قَالَ: یُصَلُّونَ فُرَادَی، وَلَا یَجْمَعُونَ،:۲۲۳/۲،رقم:۷۱۱۱
’’اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب ایسی مسجد میں داخل ہوتے جہاں جماعت ہو چکی ہوتی، تو وہ الگ الگ نماز ادا کرتے۔‘‘
اسی طرح طبرانی کبیر میں ہے کہ
’ اَنَّ عَلقَمَةَ ، وَالاَسوَدَ اَقبَلَا مَعَ ابنِ مَسعُودٍ إِلَی المَسجِدِ، فَاستَقبَلَهُمُ النَّاسُ، وَقَد صَلَّوا فَرَجَعَ بِهِمَا اِلَی البَیتِ، ثُمَّ صَلّٰی بِهِمَا ‘معجم الکبیر للطبرانی،رقم: ۹۳۸۰) بسند حسنٍ عن ابراهیم
’’حضرت علقمہ اور اسود دونوں حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مسجد کی طرف آرہے تھے کہ انھیں لوگ اس حال میں ملے کہ وہ مسجد میں نمازپڑھ چکے تھے تو آپ ان دونوں کو لے کر گھر آگئے اور جماعت کرائی۔‘‘
اگر ایک مسجد میں دوبارہ جماعت کرانا مطلقاً جائز ہوتا تو حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ گھر میں ہر گز جماعت نہ کراتے، حالانکہ مسجد میں نماز پڑھنا افضل ہے۔
حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا گھر میں نماز ادا کرنا، ان کا ذاتی اجتہاد نہیں، بلکہ سنتِ رسول کی اتباع ہے۔ چنانچہ طبرانی اوسط میں عبد الرحمن بن ابی بکرہ سے مروی ہے۔
’ اَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ اَقبَلَ مِن نَوَاحِیِ المَدِینَةِ یُرِیدُ الصَّلٰوةَ ، فَوَجَدَ النَّاسَ قَد صَلُّوا۔ فَمَالَ اِلٰی مَنزِلِهٖ فَجَمَعَ اَهلَهٗ فَصَلّٰی بهِما ‘معجم الاوسط للطبرانی، رقم :۴۷۳۹، و قال الهیثمی: و رِجَالُهٗ ثِقَاتٌ وَ قَالَ الاِمَامُ ناصر الدین الالبانی فی تمام المنّة وهو حَسَنٌ،ص:۱۵۵
’’ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نواحی مدینہ سے نمازِ فرض کے لیے مسجد کی طرف آرہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ لوگ نماز ادا کر چکے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر آگئے اور گھر والوں کو جمع کرکے انہی کے ساتھ نماز ادا کی یعنی جماعت کرائی۔
امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ خیر القرون کے اسلافِ کرام کا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے ذکر کرتے ہیں کہ
’ وَ إِنَّا قَد حَفِظنَا أَن قَد فَاتَت رِجَالًا مَعَهُ الصَّلٰوةُ فَصَلَّوا بِعِلمِهٖ مُنفَرِدِینَ، وَ قَد کَانُوا قَادِرِینَ عَلٰی اَن یَّجمَعُوا، وَ أَن قَد فَاتَتِ الصَّلٰوةُ فِی الجَماَعَةِ قَومًا، فَجَاؤُا المَسجِدَ فَصَلّٰی کُلُّ وَاحِدٍ مِّنهُم مُنفَرِدًا، وَ اِنَّمَا کَرِهُوا لِئَلَّا یَجمَعُوا فِی مَسجِدٍ مَرَّتَینِ ‘کتاب الام:۱۳۶/۱
’’ ہم نے یہ بات خوب یاد رکھی ہے کہ ان میں سے جو آدمی جماعت سے رہ جاتے، وہ آپ کے علم کے باوجود الگ الگ نماز ادا کرتے۔ حالانکہ انھیں جماعت کرانے پر قدرت حاصل تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے ایک مسجد میں دو مرتبہ جماعت کرانے کو مکروہ سمجھا تھا۔‘‘
چنانچہ اس مسئلہ پر امام شافعی رحمہ اللہ کا اپنا فتویٰ بھی پڑھنے کے قابل ہے فرماتے ہیں :کہ
’’اگر کسی مسجد میں امام راتب ہو اور کسی آدمی یا چند آدمیوں کی نماز باجماعت فوت ہو جائے تو انھیں الگ الگ پڑھنی چاہیے۔ مجھے یہ بات پسند نہیں کہ وہ جماعت کرائیں۔ اگر وہ جماعت کرائیں تو نماز ہو جائے گی۔… میں توصرف اسی بناء پر دوبارہ جماعت کو پسند نہیں کرتا کہ ہمارے اسلاف کرام(صحابہ و تابعین)رحمتہ اللہ علیہم نے ایسا نہیں کیا بلکہ بعض نے اسے ناپسند کیا ہے۔‘‘
حضرت امام شافعی رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: کہ میرے خیال میں ان کے مکروہ سمجھنے کی وجہ یہ ہے، کہ مسلمانوں کی جمعیت پارہ پارہ ہو جائے گی اور کوئی ایک یا کئی آدمی جان بوجھ کر جماعت سے پیچھے رہ کر دوسرے امام کے پیچھے نماز ادا کریں گے، تو اس طرح مسلمانوں کا کلمہ متفرق ہو جائے گا اور یہ مکروہ ہے اور میں دوبارہ جماعت کرانے کو اس مسجد میں مکروہ سمجھتا ہوں جہاں امام راتب اور موذّن موجود ہو۔ لیکن جو مسجد راستے پر یا کسی کونے پر ہو اور وہاں امام اور مؤذن متعین نہ ہو اور مسافر و غیر مسافر وہاں نماز ادا کرتے ہوں یا سَستا لیتے ہوں، تو وہاں دوبارہ جماعت مکروہ نہیں۔ (انتہی ملخصًا) کتاب الأمّ:۱۳۶/۱۔۱۳۷
امام شافعی اور جمہور علمائے اسلام کے موقف کے حق میں علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ وَ بِالجُملَةِ فَالجَمهُورُ عَلٰی کَرَاهَةِ إِعَادَةِ الجَمَاعَةِ فِی المَسجِدِ بِالشَّرطِ السَّابِقِ وَهُوَ الحَقُّ، وَ لَا یُعَارِضُ هٰذَا الحَدِیثُ المَشهُورُ ( أَلَا رَجُلٌ یَّتَصَدَّقُ عَلٰی هٰذَا فَیُصَلِّی مَعَهٗ) ‘تمام المنة،ص:۱۵۷
’’خلاصہ یہ ہے کہ ائمہ دین کی اکثریت شرطِ سابق کے ساتھ ایک مسجد میں ( ایک نماز ) کی دوبارہ جماعت کو مکروہ کہتے ہیں اور یہی حق ہے اور مشہور حدیث جس میں ذکر ہے کہ کوئی کھڑا ہو اور اس پر صدقہ کرے کہ اس کے ساتھ نماز ادا کرے۔ اس فتوے کے معارض نہیں ہے۔‘‘
آگے لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابہ( رضی اللہ عنہم ) میں سے جو آپ کے ساتھ نماز ادا کر چکے تھے کسی ایک کو ترغیب دلائی کہ وہ اس آدمی کے پیچھے نفل ادا کرے تو یہ مسئلہ مفترض کے پیچھے متنفل کی نماز کا ہے اور بحث اس مسئلہ میں ہے، کہ آیا مفترض کی نماز مفترض آدمی کے پیچھے دوبارہ جماعت کی شکل میں جائز ہے یا نہیں؟ اور اس صورت کو ’’ یَتَصَدَّقُ عَلٰی ھٰذَا ‘‘ والی شکل پر قیاس کرنا، کئی وجوہات سے قیاس مع الفارق ہے۔‘‘
اس مسئلے کے متعلق دَورِ حاضر کے جلیل القدر محدث اور نامور مفکر اسلام علامہ احمد محمد شاکر مصری رحمہ اللہ کا موقف بھی پڑھنے کے قابل ہے۔ آپ امام شافعی کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اس مسئلے میں صحیح اور جلیل القدر موقف امام شافعی کا ہے اور دور رَس نگاہ ، گہرا فہم ، اسلام کے مقاصد اور اس کی روح کا گہرا مشاہدہ کرنے والی عقل اسی موقف کے درست ہونے کی خبر دیتی ہے۔
کیونکہ اسلام کا پہلا بلکہ اعلیٰ اور اشرف مقصد ، کلمۃ اﷲ کو بلند کرنا اور اس کے لیے مسلمانوں کے دلوں کو ایک کلمے اور ایک مقصد پر جمع کرنا ہے۔نماز باجماعت ادا کرنے اور صفوں کو درست رکھنے میں بنیادی حکمت یہی ہے۔ حضرت رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’ لَتُسَوُّنَّ صُفُوفَکُم،أَو لَیُخَالِفَنَّ اللّٰهُ بَینَ وُجُوهِکُم ‘صحیح مسلم،بَابُ تَسْوِیَةِ الصُّفُوفِ، وَإِقَامَتِهَا…الخ،رقم:۴۳۶
’’تم اپنی صفیں درست کرو ورنہ اﷲ تمہارے درمیان اختلاف ڈال دے گا۔‘‘
اور اسلام کے اس مقصد کا ادراک وہی کر سکتا ہے جس کی بصیرت کو اﷲ نے ’’تفقہ فی الدین‘‘ اور بحرِ شریعت کے موتی چننے اور اس کے اعلیٰ مقاصد تک رسائی حاصل کرنے کے لیے روشن کر رکھا ہو۔ جیسے امام شافعی اور جمہور ائمہ دین۔(رحمتہ اللہ علیہم)
اور مسلمانوں نے اپنی نمازوں کے کئی کئی جماعتوں کے نتائج آنکھوں سے دیکھ لیے ہیں اور اپنی صفوں کے اضطراب کو محسوس کر لیا ہے اور اپنے ہاتھوں سے چھو بھی لیا ہے۔ ہاں! جس شخص کے حواس باطل اور ناکارہ ہو چکے ہیں اور جس کی آنکھ پر اﷲ نے پردہ ڈال دیا ہے اس کے لیے یہ المیہ کوئی بڑی چیز نہیں ہے۔
آپ بارہا مسلمانوں کی مساجد میں داخل ہو کر دیکھتے ہوں گے کہ ایک قوم جماعت ترک کرکے گوشے میں بیٹھی ہوتی ہے۔ وہ اپنے خیال میں سنت کی طلب میں اپنے لیے الگ جماعت کرواتی ہے اور سمجھتی ہے کہ ہماری جماعت دوسرے کی جماعت سے افضل ہے۔اگر یہ قوم واقعی اپنے دعوے میں سچی ہو تو بھی انھوں نے الگ جماعت کروا کر ایسا گناہ کیا جو ان کی اصل نماز کا ثواب بھی لے گیا اور انھیں یہ بات قطعاً نفع نہ دے گی کہ فلاں مسلک یا جماعت کے لوگ سنن یا مندوبات کے تارک ہیں۔
آپ بعض ایسے لوگوں کو بھی دیکھیں گے کہ وہ مسلمانوں کی مساجد سے علیحدہ ہو جاتے ہیں اور مسلمانوں میں تفریق ڈالنے اور انھیں دکھ دینے کے لیے الگ مسجدیں بناتے ہیں۔ ہم اﷲ سے نیکی کی توفیق اور گناہ سے بچنے کا سوال کرتے ہیں اور یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے کلمے پر متحدہ ہونے کی ہدایت دے۔ کیونکہ وہ دعا سننے والا ہے۔ تعلیقات سنن ترمذی:۱/۴۳۱
باقی رہا حضرت انس رضی اللہ عنہ کا فعل تو اس کے متعلق علامہ البانی فرماتے ہیں کہ وہ درج ِ ذیل وجوہات کی بناء پر قابلِ استدلال نہیں۔
۱۔ اس لیے کہ وہ موقوف ہے۔
۲۔ ان سے زیادہ فقیہ اور بلند رتبہ والے صحابی حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا عمل ان کے خلاف ہے۔
۳۔ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا عمل عین سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق ہے۔ تمام المنّۃ علی فقہ السنّۃ،ص:۱۵۶
ممکن ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ ایسی مسجد کے پاس سے گزرے ہوں جس میں موذّن یا امام راتب موجود نہ ہو۔ دوسری روایات میں آتا ہے کہ آپ قریباً بیس آدمیوں کے ہمراہ مسجد بنو سلمہ کے پاس سے گزرے تھے تو آپ نے اذان کہلوائی اور جماعت کروائی۔ اس صورت میں باہر سے آنے والے مسافروں کی جماعت کے لیے گنجائش نکل سکتی ہے لیکن مطلقاً نہیں کیونکہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک مسجد میں ایک نماز کی متعدد جماعتوں کو دستور العمل نہیں بنایا، نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور نہ آپ کی زندگی کے بعد۔(واﷲ أعلم و علمہ أتم)
مسئلہ ہذا کی جو تصویر عزیز مولانا عبد الجبار سلفی نے پیش کی ہے، واقعی قبیح شکل ہے جس سے موافقت نہیں کی جا سکتی۔ لیکن جہاں تک اصل مسئلہ میں جواز کا پہلو ہے، سابقہ مستندات کے پیشِ نظر اس میں تو کلام نہیں ہونا چاہیے۔ پھر سطور بالا میں علامہ البانی رحمہ اللہ کے حوالہ سے جو اشکال پیش کیا گیا ہے، اس کا جواب علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں!’’ اگر کوئی یہ شبہ پیش کرے، کہ یہاں پر اقتداء متنفل کی مفترض کے ساتھ پائی گئی اور اس میں کلام نہیں۔ گفتگو اس میں ہے کہ اقتداء مفترض کی مفترض کے ساتھ مسجد واحد میں بہ تکرار جماعت جائز ہے یا نہیں؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ
’ أَقوَالُ رَسُولِ اللّٰهِ ﷺ أَلَا رَجُلٌ یَتَصَدَّقُ عَلٰی هٰذَا فَیُصَلِّی مَعَهٗ ، وَ أَیُّکُم یَتَّجِرُ عَلٰی هٰذَا ، وَ مَن یَّـتَّجِر عَلٰی هٰذَا فَیُصَلِّی مَعَهٗ، وَ أَلَا رَجُلٌ یَقُومُ فَیَتَصَدَّقُ عَلٰی هٰذَا فَیُصَلِّی مَعَهٗ ‘ السنن الکبرٰی للبیهقی،بَابُ الْجَمَاعَةِ فِی مَسْجِدٍ قَدْ صُلِّیَ فِیهِ إِذَا لَمْ …الخ ،رقم:۵۰۱۲،۵۰۱۳
عموم پر دلالت کرتے ہیں، خواہ مقتدی متصدق متنفل ہو یا مفترض اور اگرچہ اس واقعۂ خاص میں متصدق اس کا متنفل ہوا، مگر یہ خصوصی مورد قادحِ عموم کا نہ ہو گا۔
اوّل اس پر یہ ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ جو منجملہ رواۃ اس حدیث کے ہیں، انھوں نے بھی یہی عموم سمجھا۔ چنانچہ انھوں نے بعد وفاتِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے جماعت ثانیہ اقامت کے ساتھ قائم کی اس مسجد میں جہاں جماعت اولیٰ ہو چکی تھی۔ صحیح بخاری کے ’’باب فضل صلاۃ جماعۃ‘‘ میں ہے:
’وَجَاءَ أَنَسٌ إِلٰی مَسجِدٍ قَد صُلِّیَ فِیهِ۔ فَأَذَّنَ، وَ أَقَامَ، وَ صَلّٰی جَمَاعَةً ‘ إِنتَهٰی۔ صحیح البخاری،بَابُ فَضْلِ صَلاَةِ الجَمَاعَةِ قبل رقم۶۴۵
پھر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کا وصل نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: حاصل کلام یہ ہوا کہ سات صحابہ حضرت ابو سعید خدری، انس بن مالک، عصمہ بن مالک، سلمان ،ابوامامہ ، ابو موسیٰ اشعری اور الحکم بن عمیر رضی اللہ عنہم نے اس واقعہ کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بموجبِ ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ اس کے نماز پڑھنے لگے اس مسجد میں جہاں جماعت اولیٰ ہو چکی تھی اور اطلاق اس پر جماعت کا ہو گا کیونکہ ’’اَلإِثنَانِ فَمَا فَوقَهُمَاجَمَاعَةٌ ‘‘ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بعد وفاتِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پر عمل کیا جیسا کہ مسند ابویعلی موصلی ، ابن ابی شیبہ اور بیہقی کی روایت سے معلوم ہوا اور امام احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی مذہب ہے ۔ جیسا کہ جامع ترمذی میں مذکور ہے اور یہی مذہب صحیح و قوی ہے کہ تکرارِ جماعت بلا کراہت جائز ہے اور فقہاء حنفیہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ تکرارِ جماعت ساتھ اذان ثانی کے اس مسجد میں کہ امام و مؤذن و ہاں مقرر ہوں مکروہ ہے اور تکرار اس کا بغیر اذان کے مکروہ نہیں۔ بلکہ امام ابویوسف سے منقول ہے، کہ اگر جماعت ثانیہ ہیئت اولیٰ پر نہ ہو، تو کچھ کراہت نہیں اور محراب سے عدول کرنے سے ہیئت بدل جاتی ہے۔ فتاویٰ مولانا شمس الحق عظیم آبادی صفحہ:۱۷۵ تا۱۷۷، حنفی مذہب کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! (بحر الرائق شرح کنز الدقائق ) ’’شرح منیۃ المصلی‘‘ اور ’’طوالع الأنوار حاشیہ درالمختار‘‘ وغیرہ ۔ واضح ہو کہ حضرت ابن مسعود اور انس رضی اللہ عنہما کے اعمال میں سے چونکہ ہر ایک کو مرفوع روایات کی تائید حاصل ہے۔ لہٰذا دونوں طرح جواز ہے نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ’’صلوۃ الجماعۃ تفضل صلاۃ الفذ…‘‘ الخ عام ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب