السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ جب پہلی جماعت امام کرادے تو کیا دوسری جماعت ہو سکتی ہے اور امام بلند آواز میں قرأت کر سکتا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تکرارِ جماعت کا جواز ہے۔ حدیثِ متصدق متعد د طُرق سے مروی ہے فرمایا:
’ أَلَا رَجُلٌ یَّتَصَدَّقُ عَلٰی هٰذَا فَیُصَلِّی مَعَهٗ ‘
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اکیلے نماز پڑھتے دیکھا، تو فرمایا: کہ کیا کوئی شخص اس کو صدقہ نہیں دیتا۔ امام ابوداؤد اور ترمذی وغیرہ نے اپنی ’’سنن‘‘ میں حدیثِ ہذا پر تعدد جماعت کے جواز کے ابواب قائم کیے ہیں اور صحیح بخاری کے عنوان’’باب فضل جماعۃ‘‘ میں ہے۔
’ وَ جَاءَ أَنَسٌ إِلٰی مَسجِدٍ قَد صُلِّیَ فِیهِ فَأَذَّنَ ، وَ أَقَامَ، وَ صَلّٰی جَمَاعَةً ‘
یعنی ’’حضرت انس ایک مسجد میں آئے وہاں جماعت ہو چکی تھی۔ انھوں نے اذان اور اقامت کہہ کر باجماعت نماز پڑھی۔‘‘
باقی نماز کی جہری یا سِری قرأت کا انحصار موجود نماز کی کیفیت پر موقوف ہے۔ ظاہر ہے کہ جہری نماز میں قرأت بآواز بلند ہو گی اور سری میں آہستہ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب