السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ فرضی نماز کی ادائیگی کے وقت جو تکبیر کہی جاتی ہے وہ اگر سہواً چھوٹ جائے اس صورت میں نماز ہو جائے گی یا دوبارہ تکبیر کہہ کر نماز ادا کی جائے گی۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مرقومہ( تحریر کی گئی صورت) میں جمہور اہلِ علم اس بات کے قائل ہیں کہ نماز درست ہے، اعادے کی ضرورت نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقامت حکماًسنتِ مؤکدہ ہے، فرض اور واجب نہیں اور جو لوگ واجب ہونے کے قائل ہیں، ان میں سے اکثریت کا خیال ہے کہ اقامت فرض کفایہ ہے، جس کا مفہوم ومدعایہ ہے کہ کسی وقت ترک کی صورت میں نماز کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ عطاء اور مجاہد; وغیرہ کے نزدیک تکبیر چونکہ علی الاطلاق فرض ہے۔لہٰذا بصورتِ ترکِ نماز کی دہرائی ضروری ہے اور بعض مالکی فقہاء نے سہواً (بھول جانے) اور غیر سہو(نہ بھولنے) میں فرق کیا ہے ۔یعنی سہواً اگر تکبیر رہ جائے تو نماز ہوجائے گی بصورتِ دیگر اعادہ ( دہرانا ) ضروری ہے ۔مشہور فقیہ امام خرقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’ وَ مَن صَلّٰی بِلَا أَذَانٍ، وَ لَا إِقَامَةٍ کَرِهنَا لَهٗ ذٰلِكَ، وَ لَا یُعِید‘المختصر مع المغنی: ا/۴۳۱
’’ جس نے اذان اور اقامت کے بغیر نماز پڑھی، ہمارے نزدیک یہ فعل مکر وہ ہے۔ تاہم نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں ‘‘اس کے شارح فقیہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ اگر کوئی بلا اذان اور اقامت کے نماز پڑھ لے تو
’فَالصَّلَاةُ صَحِیحَةٌ عَلَی القَولَینِ۔‘
’’دونوں اقوال (سنت مؤکدہ اور فرض کفایہ) کے مطابق نماز درست ہے۔‘‘
اس دلیل کی بناء پر کہ علقمہ اور أسود رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ہم ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے ہمیں بلااذان اور اقامت کے نماز پڑھائی۔‘‘ (رواہُ الأثرم)مجھے معلوم نہیں ہو سکا کہ عطائ رحمہ اللہ کے ماسوااس میں کسی نے مخالفت کی ہو ۔کہا کہ جواقامت بھول جائے وہ نماز لوٹائے۔امام اوزارعی رحمہ اللہ نے بعض دفعہ کہا اگر نماز کا وقت ہو تو لوٹائے اور اگر وقت گزر ائے تو نہ لوٹائے۔
’ وَالصَّحِیحُ قَولُ الجَمهُورِ، لِمَا ذَکَرنَا، لِأَنَّ الاِقَامَةَ أَحَدُ الأَذَانَینِ، فَلَم تَفسُدِ الصَّلَاةُ بِتَرکِهَا کَالآخَرِ‘
یعنی ’’مذکورہ وجوہات کی بناء پر جمہور کا قول صحیح ہے۔ اس لئے بھی کہ اقامت دو اذانوں میں سے ایک ہے۔ اس کے ترک سے نماز فاسد نہیں ہوگی، جس طرح کہ اذان کے ترک سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔‘‘ انتہی
مسئلہ ہذا پر امام شوکانی رحمہ اللہ نے قدرے تفصیل سے بحث کی ہے۔جانبین کے دلائل جمع کرنے کے علاوہ فقہائِ کرام کے مسالک کی بھی نشاندہی کی ہے ۔ان کا رجحان بھی وجوب کی طرف ہے۔ملاحظہ ہو!’’نیل الأوطار‘‘ (۳۳/۲۔۳۴) جس طرح کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ بھی ’’المحلیٰ‘‘ میں وجوب کے قائل ہیں۔
جماعت کے نامور محقق مولانا عبدالقادر حصاروی مرحوم نے اپنی تالیف ’’کتاب الأذان‘‘ میں اسی مسلک کو اختیار کیا ہے ۔
دوسری طرف صحیح بخاری کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ علی الاطلاق ( بغیر شرط کے) ان کی مشروعیت اور مسنون ہونے کے قائل ہیں ۔اسی طرح امام فقیہ مجتہد ’’ابن دقیق العید‘‘ فرماتے ہیں:
’ وَالمَشهُورُ أَنَّ الأَذَانَ وَالاِقَامَةَ سُنَّتَانِ وَ قِیلَ: هُمَا فَرضَانِ عَلَی الکِفَایَةِ وَهُوَ قَولُ الأَصطَخرِی مِن أَصحَابِ الشَّافِعِيِّ ‘احکام الاحکام ۲۱۵/۱
’’مشہور بات یہ ہے کہ اذان اور اقامت دونوں سنت ہیں اور بصیغۂ مجہول ایک قول یہ بھی ہے کہ دونوں فرض کفایہ ہیں ۔امام شافعی رحمہ اللہ کے اصحاب میں سے اصطخری رحمہ اللہ کا یہی قول ہے ۔‘‘
الحاصل ائمہِ حدیث اور فقہاء عظام کے اقوال وآثار کی روشنی میں یہ امر واضح ہے کہ اذان اور اِقامت دونوں تاکیدی امور میں سے ہیں ۔تاہم اگر کسی وقت سہواًرہ جائیں تو نماز میں خلل واقع نہیں ہوگا ۔ان شاء اﷲ۔ بخلاف شاذ مسلک کے، جس میں نماز کے بُطلان کا موقف اختیار کیا گیا ہے۔ (هذا ما عندی واﷲ أعلم بالصواب وعلمہ أتم)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب